مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 592
وَعَنْ جُنْدُبِ الْقَسْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی صَلٰوۃَ الصُّبْحِ فَھُوَ فِیْ ذِمَّۃِ اللّٰہِ فَلَا ےَطْلُبَنَّکُمُ اللّٰہُ مِنْ ذِمَّتِہٖ بِشَےْئٍ فَاِنَّہ ُ مَنْ ےَّطْلُبُہ ُ مِنْ ذِمَّتِہٖ بِشَئٍْ ےُّدْرِکْہُ ثُمَّ ےَکُبُّہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ)
نماز کے فضائل کا بیان
اور حضرت جندب قسری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ (دنیا و آخرت میں) اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد میں کچھ مواخذہ کرے کیونکہ جس سے اس نے عہد وامان میں مواخذہ کیا تو (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) کہ اسے پکڑ کر دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قسری کے بجائے قشیری ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس آدمی سے بدسلوکی نہ کریں، اس کو قتل نہ کریں۔ اس کا مال نہ چھینیں، اس کی غیبت نہ کریں اور اس کو بےآبروئی نہ کریں۔ اگر کسی آدمی نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی یا اس کے ساتھ کوئی ایسا رویہ اختیار کیا جو اس کی جان و مال اور اس کی آبرو کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں خلل ڈالا لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے سخت مواخذہ کرے گا اور جس بدنصیب سے اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کیا اس کے لئے نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوگا۔ یا پھر عہد وامان سے مراد نماز ہے کہ صبح کی نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں امن دینے کا وعدہ کرلیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبح کی نماز ہرگز قضا نہ کریں ورنہ ان کے اور پروردگار کے درمیان جو عہد ہے وہ ٹوٹ جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا اور اس کے مواخذے سے بچانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔
Top