مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 583
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ صَلَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَاۃَ العَتَمَۃِ فَلَمْ یَخْرُجْ حَتّٰی مَضٰی نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّیْلِ فَقَالَ خُذُوْامَقَاعِدَ کُمْ فَاَخَذْنَا مَقَاعِدَنَا فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلُوا وَاَخَذُوْا مَضَا جِعَھُمْ وَ اِنَّکُمْ لَنْ تَزَالُوْ افِیْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْ تُمُ الصَّلَاۃَ وَلَوْ لَا ضَعْفُ الضَّعِیْفِ وَسَقْمُ السَّقِیْمِ لَاَ خَّرْتُ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ اِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ۔ (رواہ ابوداؤ والنسائی )
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جماعت کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھنے گئے۔ (اتفاق سے اس روز) رسول اللہ ﷺ آدھی رات کے قریب تک تشریف نہ لائے (بعد ازاں آکر ہم سے) ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا، چناچہ ہم اپنی جگہوں (سے اٹھے نہیں بلکہ وہیں) پر بیٹھے رہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لئے ہیں اور (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمہارا یہ سارا وقت نماز ہی میں شمار کیا جائے گا (یعنی تمہیں اس انتظار کی وجہ سے برابر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا) اور اگر مجھے ضعیفوں کی کمزوری اور بیماروں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں ہمیشہ یہ نماز آدھی رات تک دیر کر کے پڑھا کرتا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

تشریح
جیسا کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرز چکا ہے کہ (مسلمانوں کے علاوہ) کسی بھی دوسرے دین کے لوگ عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے، لہٰذا اس ارشاد کی روشنی میں حدیث کے الفاظ دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لئے ہیں، کی تشریح یہ کی جائے گی کہ دوسرے دین کے لوگ (مثلاً یہود و نصاری) تو شام کی نماز پڑھ کر یا اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر کے اپنے اپنے بستروں پر جا کر نیند کی آغوش میں پہنچ گئے مگر چونکہ تمہارے نصیب میں اس نماز کی سعادت و فضیلت لکھی ہوئی ہے۔ اس لئے تم اب اس سعادت و فضیلت کی تکمیل کی خاطر نماز کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اور چونکہ تم اپنا آرام اپنی نیند اور اپنا چین سب اپنے پروردگار کی عبادت کے انتظار میں لٹا چکے ہو اس لئے تمہارا پروردگار بھی اس محنت و مشقت کا صلہ اس طرح تمہیں دے گا کہ تمہارے اس انتظار کے ایک ایک لمحے کو سراپا عبادت و باعث سعادت بنا دے گا بایں طور پر کہ تمہارا یہ جتنا وقت انتظار میں گزرا ہے یا جتنا وقت گزرے گا تو سمجھو کہ وہ نماز ہی میں گزرا ہے یا گزرے گا یعنی جتنا ثواب نماز پڑھنے کا ملتا ہے اتنا ہی ثواب اس انتظار کا بھی ملے گا۔ یا پھر اس جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے محلوں کے مسلمان جو اس مسجد میں حاضر نہیں ہیں عشاء کی نماز پڑھ کر سو رہے ہیں اور تم لوگ اب تک نماز عشاء کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو اس طرح ان مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ثواب و فضیلت کے حقدار بنو گے، یہی معنی ما بعد کے الفاظ ( وانکم لن ترالو الخ) کے زیادہ قریب اور مناسب ہیں۔ بہر حال۔ یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز میں آدھی رات تک تاخیر جائز ہے بلکہ عبادت کے سلسلے میں زیادہ محنت و مشقت اٹھانے کی وجہ سے مستحب اور افضل ہے۔
Top