مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 582
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی الصَّلَوٰاتِ نَحْوًا مِنْ صَلٰوتِکُمْ وَکَانَ یُؤَخِّرُالْعَتَمَۃَ بَعْدَ صَلٰوتِکُمْ شَیْعًا وَکَانَ یُخَفِّفُ الصَّلٰوۃَ ( مسلم )
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت جابر ابن سمرہ ؓ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری نمازوں کے قریب قریب (اوقات میں) نماز پڑھا کرتے تھے مگر عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ دیر کر کے پڑھتے تھے اور ہلکی نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
نہی کے باوجود حضرت جابر ؓ نے عشاء کو عتمہ اس لئے کہا ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو نہی کا حکم معلوم نہیں ہوا ہوگا یا پھر یہ نام چونکہ اہل عرب میں پہلے سے جانا پہچانا جاتا تھا اس لئے انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس نام سے لوگ اس نماز کو اچھی طرح پہچان لیں گے عتمہ ہی کہا۔ بہر حال یہ حدیث بھی اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا ہی افضل و مستحب ہے۔ ہلکی نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے مگر علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نماز میں چھوٹی چھوٹی سورتیں اس وقت پڑھتے تھے جب کہ امامت فرماتے اور ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت مد نظر ہوتی۔ اور ویسے بھی یہ بات باعتبار اکثر کے فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورت اعراف بھی پڑھی ہے۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کا اتنی بڑی بڑی سورتیں پڑھنا بھی لوگوں پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ یعنی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا کیف و سرور محسوس ہوتا تھا کہ طویل قرأت بھی انہیں ہلکی ہی معلوم ہوتی تھی اور ازراہ شوق طویل قرأت میں زیادتی کے طالب رہتے تھے اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کی امامت میں یہ بات حاصل ہونا مشکل ہے۔
Top