مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 579
وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْفِرُوْا بِالفَجْرِ فَاِنَّہ، اَعْظَمُ لِاَ جْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَا لدَّرِامِیُّ وَلَیْسَ عِنْدَ النِّسَائِی فَاِنّہ، اَعْظَمُ لِلْاَجْرِ۔
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت رافع ابن خدیج ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ (فانہ اعظم للاجر) (یعنی اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے )۔ نہیں ہیں۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں شروع کرنی چاہئے چناچہ حنفیہ کا ظاہری مسلک یہی ہے کہ فجر کی نماز کی ابتداء و اختتام دونوں ہی اسفار میں ہوں۔ مگر حضرت امام طحاوی (رح) جو حنفی مسلک کے ایک جلیل القدر امام ہیں فرماتے ہیں کہ ابتداء تو غلس (اندھیرے) میں ہونی چاہئے اور اختتام اسفار میں اور اس کا طریقہ یہ ہو کہ قرأت اتنی طویل کی جائے کہ پڑھتے پڑھتے اجالا پھیل جائے۔ چناچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ امام طحاوی (رح) کی یہ تاویل اولیٰ اور احسن ہے کیونکہ اس طرح ان تمام احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے جن میں سے بعض تو غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسفار میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔ ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق کی وجہ خود ایک حدیث بھی ہے جو شرح السنہ میں منقول ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں موسم کا اعتبار ہوگا یعنی جاڑے کے موسم میں تو غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہوگا اور گرمی کے موسم میں اسفار کرنا بہتر ہگا۔ چناچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں الحدیث ( قَالَ مُعَاذٌ بَعْثَنِیْ رَسُوْلُ اللہ ﷺ اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اِذَا کَانَ فِی الشِّتَاءِ فَغَلِّسْ بِالفَجْرِ وَاطِلٍ القِرَآءَ ۃُ قَدْرَ مَا یُطِیْقُ النَّاسُ وَلَا تُمِلَّھُمْ وَاِذَا کَانَ فِی الصَّیْفِ فَاسْفِرْ بِالفَجْرِ فَاِنَ اللَّیْلِ قَصِیْرٌ وَالنَّاسُ نِیَامٌ فَاَ مْھِلْھُمْ حَتّٰی اَدْرَکُوْا یَعْنِی الصَّلٰوۃَ )۔ حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا تو یہ (بھی) فرمایا کہ جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا اور قرأت طویل کرنا (مگر اتنی کہ) لوگوں پر بھاری نہ ہو کہ وہ تنگ ہوجائیں اور جب گرمی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں پڑھنا کیونکہ (گرمی) میں رات چھوٹی ہونے کیوجہ سے لوگ سوئے رہتے ہیں اس لئے انہیں اتنا موقع دو کہ وہ نماز میں شریک ہو سکیں۔ بہر حال علماء حنفیہ کے نزدیک اسفار کی حد یہ ہے کہ طلوع آفتاب میں اتنا وقت رہے کہ اس میں قرأت مسنون (جو چالیس سے ساٹھ یا سو آیتوں تک ہے) ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکے۔ اور نماز کے بعد اگر طہارت میں کوئی خلل معلوم ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وضو اور مذکورہ بالا طریقہ پر نماز کا اعادہ ممکن ہو سکے۔
Top