مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 573
وَعَنْ اُمِّ فَرْوَۃَ قَالَتْ سُئِلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ الْاَعْمَالِ اَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاۃُ لِاَوَّلِ وَقْتِھَا رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِّیُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَا یُرْ َوی الْحَدِیْثُ اِلَّامِنْ حَدِیْثِ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِی وَھُوَ لَیْسَ بِالْقَوِی عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ۔
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت ام فردہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ (ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے) کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) اور حضرت امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ ابن عمر عمری سے روایت کی جاتی ہے۔ اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل یہی ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کتاب الصلوٰۃ کی حدیث نمبر پانچ کے فائدہ کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے کہ افضل اعمال کے سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہیں۔ جن میں مختلف اعمال کو افضل کہا گیا ہے۔ وہاں اس کی بھی وضاحت کردی گئی تھی کہ جن جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہ اپنے اپنے موقع و مناسبت کی بناء پر یقینا افضل ہیں۔ چنانچہ یہاں پھر سمجھ لیجئے کہ دوسری احادیث میں جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہاں ا فضیلت اضافی مراد ہے یعنی بعض اعمال بعض حیثیت سے افضل ہیں اور بعض اعمال کو دوسری وجوہ اور حیثیت سے دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے لیکن نماز علی الا طلاق یعنی بہمہ وجوہ ایمان کے بعد اعمال سے افضل و اشرف ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے راوی صرف ایک یعنی عبدا اللہ ابن عمر عمری ہیں اور وہ بھی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن عمر عمری کے بارے میں غالباً پہلے بھی کسی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق ؓ کے خاندان سے ہیں اس لئے انہیں عمری کہا جاتا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عبداللہ ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر فاروق۔ بہر حال ترمذی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو نہیں پہنچتی حالانکہ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
Top