مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 554
عَنْ سَےَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ قَالَ دَخَلْتُ اَنَا وَاَبِیْ عَلٰی اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ص فَقَالَ لَہُ اَبِیْ کَےْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ فَقَالَ کَانَ ےُصَلِّی الْھَجِےْرَ الَّتِیْ تَدْعُوْنَھَا الْاُوْلٰی حِےْنَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَےُصَلِّی الْعَصْرَ ثُمَّ ےَرْجِعُ اَحَدُنَا اِلٰی رَحْلِہٖ فِیْ اَقْصَی الْمَدِےْنَۃِ وَالشَّمْسُ حَےَّۃٌ وَّنَسِےْتُ مَاقَالَ فِی الْمَغْرِبِ وَکَانَ ےَسْتَحِبُّ اَنْ ےُّؤَخِّرَ الْعِشَآءَ الَّتِیْ تَدْعُوْنَھَا الْعَتَمَۃَ وَکَانَ ےَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِےْثَ بَعْدَھَا وَکَانَ ےَنْفَتِلُ مِنْ صَلٰوۃِ الْغَدَاۃِ حِےْنَ ےَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِےْسَہُ وَےَقْرَأُ بِالسِّتِّےْنَ اِلَی الْمِائَۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ وَّلَا ےُبَالِیْ بِتَأْخِےْرِ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ الَّلےْلِ وَلَا ےُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِےْثَ بَعْدَھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
حضرت سیار ابن سلامہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد (ہم دونوں) حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کس طرح (یعنی کس کس وقت) پڑھتے تھے، انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز جسے پہلی نماز کہا جاتا ہے سورج ڈھلنے کے وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ ہم میں سے کوئی نماز پڑھ کر مدینہ کے کنارے اپنے مکان پر جا کر سورج روشن ہوتے ہوئے ( یعنی اس کے متغیر ہونے سے پہلے) واپس آجاتا تھا۔ سیار فرماتے ہیں کہ مغرب کے بارے میں ابوبرزہ ؓ نے جو کچھ بتایا تھا وہ میں بھول گیا اور (ابوبرزہ ؓ کہتے تھے کہ عشاء کی نماز جسے تم عتمہ کہتے ہو رسول اللہ ﷺ تاخیر سے پڑھنے کو بہتر سمجھتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد (دنیاوی) باتیں کرنے کو آپ ﷺ مکروہ سمجھتے تھے اور صبح کو نماز ایسے وقت پڑھ ( کر فارغ ہو) لیتے تھے کہ ہر آدمی اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا اور (نماز میں) ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھ لیا کرتے تھے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تہائی رات تک عشاء میں دیر کرنے میں تامل نہ فرماتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہاں ظہر کے بارے میں جو وقت ذکر گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سردی کے موسم میں ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھتے ہوں گے کیونکہ یہ قولا اور فعلا ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ عتمہ اس تاریکی کو کہتے ہیں جو شفق غائب ہونے کے بعد ہوتی ہے چناچہ پہلے عرب میں عتمہ عشاء کو کہتے تھے مگر بعد میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو منع کردیا کہ عشاء کو عتمہ نہ کہا جائے۔ یہاں تاخیر سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ عشاء کی نماز تہائی رات تک تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد دنیا کی باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اعمال کا خاتمہ عبادت اور ذکر اللہ پر ہونا چاہئے کیونکہ نیند بمنزلہ موت ہے۔ شرح السنۃ میں منقول ہے کہ عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے اور بعض حضرات نے سونے کی اجازت دی ہے چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عشاء سے پہلے سوتے اور بعض علماء کے نزدیک صرف رمضان میں عشاء سے پہلے سونا جائز ہے۔ حضرت امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ عشاء کی نماز کا وقت سونے کی نذر ہوجائے گا تو سونا مکروہ نہیں ہے۔ عشاء کے بعد باتوں میں مشغول ہونے کو علماء کی ایک جماعت نے مکروہ کہا ہے چناچہ حضرت سعید ابن مسیب کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک بغیر عشاء کی نماز پڑھے سو رہنا اس سے بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی آدمی لغو کلام اور دنیاوی باتوں میں مشغول ہو۔ بعض علماء نے عشاء کے بعد علم کی باتیں کرنے کی اجازت دی ہے اسی طرح ضرورت اور حاجت کے سلسلے میں یا گھر والوں اور مہمان کے ساتھ باتیں کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (ملا علی قاری) حضرت شٰخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں جائز ہیں، یعنی اگر کوئی آدمی عشاء کی نماز سے پہلے سستی اور کاہلی کو دور کرنے اور نشاط و تازگی حاصل کرنے کے لئے سونا چاہے تو اس کے لئے سونا جائز ہے، اسی طرح عشاء کی نماز کے بعد ایسی باتیں کرنا جو ضروری ہوں اور بےمعنی نہ ہوں جائز ہے۔
Top