مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5641
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ليس الخبر كالمعاينة إن الله تعالى أخبر موسى بما صنع قومه في العجل فلم يلق الألواح فلما عاين ما صنعوا ألقى الألواح فانكسرت . روى الأحاديث الثلاثة أحمد
شنیدہ کے بود دیدہ :
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے اس عمل کے بارے میں خبر دی جو انہوں نے گوسالہ پرستی کی صورت میں کیا تھا تو انہوں نے (مارے غصہ کے) تختیوں کو نہیں پھینکا لیکن جب وہ اپنی قوم میں واپس آئے اور اپنی آنکھوں سے قوم کے اس عمل کو دیکھا تو (اس درجہ غضبناک ہوگئے کہ) تختیوں کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں۔ ان تینوں حدیثوں کو احمدنے نقل کیا ہے۔

تشریح
کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے ایک اہم نفسیاتی نکتہ کی طرف ارشاد فرمایا ہے، انسان کا خاصہ ہے کہ وہ آنکھ سے دیکھی ہوئی چیز سے جتنا زیادہ اور جتنی جلدی متاثر ہوتا ہے اتنا زیادہ اور اتنی جلدی سنی ہوئی چیز سے متاثر نہیں ہوتا، اگر اس کو یہ خبر و اطلاع دی جائے کہ تمہارا فلاں عزیز سخت بیمار ہے تو اس کا پریشان اور متفکر ہوجانا فطری امر ہے لیکن اس خبر و اطلاع کے مقابلہ میں، خواہ وہ کتنی ہی یقینی کیوں نہ ہو، اس کے دل و دماغ پر وہ فکر اور پریشانی کہیں زیادہ سخت اور سریع الاثر ہوتی ہے جو اس بیمار عزیز کو آنکھوں سے دیکھ لینے کی صورت میں لاحق ہوتی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسی نکتہ کو ثابت کرنے کے لے یہ واقع بطور مثال پیش فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلہ کشی) کے لئے جبل طور پر تشریف لے گئے اور وہاں اپنے پروردگار سے راز ونیاز میں مصروف اور اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے آئین الہٰی (تورات) حاصل کرنے میں مشغول تھے تو نیچے وادی سینا میں ان کی قوم نے ایک بد باطن شخص سامری کی قیادت میں گوسالہ کی پوجا شروع کردی، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور فرمایا کہ موسیٰ! تو جس قوم کی ہدایت کے لئے اس قدر کوشاں اور مضطرب ہو اور یہاں (کوہ طور پر) اس کے لئے میری طرف سے کتاب و ہدایت (تورات) حاصل کررہے ہو، وہ تمہارے پیچھے گوسالہ پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہوگئی ہے، یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رنج ہوا اور غصہ بھی آیا مگر جب وہ قوم کی طرف واپس آئے اور قوم کے لوگوں کو گوسالہ کی سمادھ لگائے اور اس کی پوجا کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ کہیں زیادہ غضب ناک ہوگئے اور اس غیظ وغضب کی بنا پر انہوں نے ان تختیوں کو جن پر تورات لکھی ہوئی تھی زمین پر پھینک دیا جس سے وہ تختیاں ٹوٹ بھی گئیں۔ ان تختیوں کو پھینک کر گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ یہ آئین الہٰی اہل ایمان ہی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جن لوگوں نے ایمان و عقیدہ کی راہ ترک کر کے کفر اور سرکشی کو اختیار کرلیا ہے ان کے لئے آئین الہٰی پر مشتمل ان تختیوں کو باقی رکھنے کا اب کیا فائدہ رہ گیا۔ تاہم ان تختیوں کے ٹوٹ جانے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان میں جو کچھ تھا وہ جاتا رہا، ان تختیوں میں جو احکام و فرمان تھے وہ سب کے سب جوں کے توں موجود تھے اور اصل تورات اپنی جگہ باقی تھی۔
Top