مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5631
وعن جبير بن مطعم قال : أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم أعرابي فقال : جهدت الأنفس وجاع العيال ونهكت الأموال وهلكت الأنعام فاستسق الله لنا فإنا نستشفع بك على الله نستشفع بالله عليك . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : سبحان الله سبحان الله . فما زال يسبح حتى عرف ذلك في وجوه أصحابه ثم قال : ويحك إنه لا يستشفع بالله على أحد شأن الله أعظم من ذلك ويحك أتدري ما الله ؟ إن عرشه على سماواته لهكذا وقال بأصابعه مثل القبة عليه وإنه ليئط أطيط الرحل بالراكب رواه أبو داود
عرش الہٰی کا ذکر :
اور جبیر ابن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا کہ (ہمارے ہاں خشک سالی کی وجہ سے) انسانی جانیں قحط کا شکار ہورہی ہیں، بال بچوں کو بھکری کا سامنا ہے، مال وجائداد کی بربادی ہورہی ہے اور مویشی ہلاک ہو رہے ہیں، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے بارش مانگئے، ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ﷺ کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے، آپ ﷺ باربار تسبیح کے یہی الفاظ فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے شخص تجھ پر افسوس ہے درحقیقت اللہ کو کسی کے ہاں شفیع مقرر نہیں کیا جاتا اور نہ اس کو وسیلہ بنایا جاتا ہے بلاشبہ اللہ کی ذات اور اس کی حیثیت اس سے بالا تر ہے کہ اس کو کسی کا وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے تجھ پر افسوس کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی عظمت و جلالت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عرش اس کے آسمانوں کو اس طرح محیط ہے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ہتھلی کے اوپر قبا کی صورت میں دکھایا یعنی آپ ﷺ نے ہاتھ کو گنبد کی صورت میں بنا کر دکھایا کہ جس طرح یہ گنبد نما ہاتھ ہتھلی کو گھیرے ہوئے ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش زمین تو زمین تمام آسمانوں تک کو اپنے نیچے گھیرے ہوئے ہے اور وہ عرش اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے جس اونٹ کا پلان یا گھوڑے کی زین (بھاری بھر کم) سوار کے نیچے چرچر کرتی ہے (ابوداؤد)

تشریح
ہم اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں اس جملہ سے اس دیہاتی کی مراد یہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں آپ ﷺ کی ذات کو اور آپ ﷺ کی عظمت و بزرگی کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں آپ ﷺ کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور آپ ﷺ سے یہ دعا کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار ہمارے حال پر رحم فرما کر بارش برسادے نیز آپ کی سفارش و توجہ چاہنے کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ملتجی ہیں کہ وہ آپ ﷺ کو ہماری طرف متوجہ کردے آپ ﷺ کو ہمارے حق میں سفارش کرنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن اس نے اپنی یہ مراد ظاہر کرنے کے لئے موزوں اسلوب اختیار نہیں کیا جب کہ گھبراہٹ میں اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکلے جن سے نہ صرف یہ کہ اس کی اصل مراد خبط ہوگئی بلکہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں وسیلہ بنا رہا ہے اور اس طرح اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کے نظام اور اس کے حکم واختیار میں آنحضرت ﷺ کو شریک و برابر کررہا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے حکم واختیار اور اپنے نظام قدرت میں کسی بھی طرح مشارکت اور کسی بھی طرح ہمسری کی روادار نہیں ہے ارشاد ربانی ہے لیس لک من الامرشیئ خدا کے نظام میں آپ ﷺ کو کوئی دخل نہیں اور یہ بھی فرمایا من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس کسی کی سفارش کرسکے بدوں اس کی اجازت کے۔ لہٰذا اس دیہاتی کا یہ کہنا حضور ﷺ کو نہایت ناگوار ہوا اور آپ ﷺ اس کی طرف سے اس جملہ کی ادائیگی پر اظہار حیرت وتعجب اور اس کو متنبہ کرنے کے لئے بار بار سبحان اللہ سبحان اللہ فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے بار بار سبحان اللہ کہنے سے اس مجلس میں موجود صحابہ سمجھ گئے کہ دیہاتی کے اس کہنے سے آپ ﷺ کو شدید ناگواری اور غصہ ہے، لہٰذا آنحضرت ﷺ کے غضب وغصہ کو محسوس کرکے وہ سب بھی ڈر گئے اور خوف اللہ سے ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے جب ان صحابہ کے چہروں پر خوف اللہ کا اثر دیکھا تو آپ ﷺ نے سبحان اللہ کہنا موقوف کردیا اور اس دیہاتی کے طرف روئے سخن نہ کیا۔ وہ عرش اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے الخ۔ کے ذریعہ آپ ﷺ نے گویا اس دیہاتی کی سمجھ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان کی تمثیل بیان کی اور اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا اظہار ہے کہ اتنا بڑا عرش بھی اس کے تحمل سے عاجز ہے
Top