مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5629
عن أبي رزين قال : قلت : يا رسول الله أين ربنا قبل أن يخلق خلقه ؟ قال : كان في عماء ما تحته هواء وما فوقه هواء وخلق عرشه على الماء . رواه الترمذي وقال : قال يزيد بن هارون : العماء : أي ليس معه شيء
خدا کے بارے میں ایک سوال :
اور حضرت ابورزین بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ ہمارا پروردگار اپنی مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا عماء میں تھے نہ اس کے نیچے ہوا تھی اور نہ اس کے اوپر اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا کیا اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا یزید ابن ہارون نے وضاحت کی ہے عماء سے مراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی۔

تشریح
عماء کے اصل معنی ابر (بادل) کے ہیں خواہ ہلکا ہو یا گہرا لیکن یہاں یہ اصل معنی مراد نہیں ہے کہ پروردگار اپنی مخلوقات پیدا کرنے سے پہلے ابر میں تھا بلکہ اس لفظ سے ایک پورے مفہوم کی طرف اشارہ مقصود ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ سوال میں جس حقیقت کی جستجو ظاہر کی گئی ہے اس تک نہ کسی کا علم پہنچ سکتا ہے نہ کوئی عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے اور نہ کوئی اس کو بیان کرسکتا ہے نہ اس کے نیچے ہوا تھی اور اس کے اوپر ان الفاظ کے ذریعہ اس مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مخلوقات سے پہلے صرف اللہ ہی اللہ تھا اس کے ساتھ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی اس اعتبار سے اس جملہ کا حاصل وہی ہے جو اس حدیث کا مضمون ہے کان اللہ ولم یکن معہ شیء (صرف اللہ کی ذات موجود تھی اس کے ساتھ کسی چیز کا وجود نہیں تھا) اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ماقبل جملہ (عماء میں ہے) سے اللہ کی طرف مکان کی نسبت کا واہمہ ہوسکتا تھا لہٰذا اس واہمہ کے دفعیہ کے لئے مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا کہ عماء یعنی ابر سے متعارف ابر مراد نہیں ہے جس کے اوپر نیچے ہوا ہوتی ہے اور جب متعارف ابر مراد نہیں ہے کیونکہ اس کا ہوا کے بغیر ہونا محال ہے تو یہ وہم نہ ہونا چاہے کہ عماء کے ذریعہ اللہ کی طرف کسی مکان اور مقام کی نسبت کی گئی ہے اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا کیا جملہ کے بارے میں ایک شارح نے یہ لکھا ہے کہ سائل نے جو سوال کیا تھا اس کا اصل مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ این کان عرش ربنا، یعنی مخلوقات جیسے زمین و آسمان وغیرہ کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارے پروردگار کا عرش کہاں تھا اس کا جواب ﷺ نے یہ دیا کہ عرش الہٰی پانی کے اوپر تھا اس کی تحقیق پیچھے گذر چکی ہے۔
Top