مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5613
وعنه قال : استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود . فقال المسلم : والذي اصطفى محمدا على العالمين . فقال اليهودي : والذي اصطفى موسى على العالمين . فرفع المسلم يده عند ذلك فلطم وجه اليهودي فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بما كان من أمره وأمر المسلم فدعا النبي صلى الله عليه و سلم المسلم فسأله عن ذلك فأخبره فقال النبي صلى الله عليه و سلم : لا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأصعق معهم فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان فيمن استثنى الله . . وفي رواية : فلا أدري أحوسب بصعقة يوم الطور أو بعث قبلي ؟ ولا أقول : إن أحدا أفضل من يونس بن متى
ایک نبی کو دوسرے نبی کے مقابلہ پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ممانعت :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ (کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا اللہ کی قسم جس نے محمد ﷺ کو سارے جہان کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا یہودی (شکایت لے کر) نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورت حال کی تحقیق کی، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی۔ نبی کریم ﷺ نے (فریقین کے بیانات سن کر) فرمایا مجھ کو موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو اس لئے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بیہوش ہو کر گر جاؤں گا پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو) دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسیٰ بیہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بیہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا۔ (اور بیہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی بیہوشی کو (قیامت کے دن کی) اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بیہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے۔ اور حضرت ابن سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو ( بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ۔ تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو۔

تشریح
قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انی اصطفیتک علی الناس (یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تمہیں تمام لوگوں میں سب سے بہتروافضل قرار دیا ہے) تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا تھا، لیکن اس یہودی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو برگزیدگی اور افضلیت کے اس مفہوم کو مطلق رکھا اور یہ دعوی کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل اور سب سے بہتر ہیں اور اس طرح اس نے آنحضرت ﷺ کی برگزیدگی اور افضلیت کا انکار کیا، اسی وجہ سے اس کے مخالف مسلمان کو طیش آگیا اور انہوں نے اس کے طمانچہ رسید کردیا۔ یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو یہ فرمایا ہے کہ۔ ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ط اور (جب قیامت کے دن) صور میں پھونک ماری جائے گی تو تمام آسمان اور زمین والے بیہوش ہوجائیں گے علاوہ ان کے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیہوش کرنا چاہے گا (جسے فرشتے )۔ تو یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح فرشتوں پر بیہوشی طاری ہوگی اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بہوش ہونے سے مستثنیٰ کردے گا! بہرحال آنحضرت ﷺ نے دونوں صورتیں ذکر فرما کر یہ واضح کیا دونوں ہی صورتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی بیہوش ہوجائیں گے، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بیہوش ہوجانے والو میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوں گے حالانکہ مجھ پر بیہوشی طاری ہوجائے گی، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں لیکن اس بات کو آنحضرت ﷺ کی کسرنفسی پر محمول کرنا چاہے کہ آپ ﷺ نے از راہ انکسار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت کو اس طرح ظاہر فرمایا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو جو شرف حاصل ہوگا وہ زیادہ سے زیادہ جزوی فضیلت کی نوعیت رکھتا ہے جو اس بات کے منافی نہیں کہ کلی فضیلت آنحضرت ﷺ ہی کو حاصل ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل نہیں ہیں تو یہ اس وقت کا ارشاد ہے جب کہ وہ وحی نازل نہیں ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ کا ہر ایک سے افضل و اشرف ہونا مذکور ہے، اس وحی کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ کی افضلیت کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہوچکی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ کوہ طور پر بیہوش ہو کر گرپڑنا۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر حق تعالیٰ کی ذات کے دیدار کی خواہش کی تو بارگاہ رب العزت سے جواب ملا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تم مشاہدہ ذات کی تاب نہ لاسکو گے اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے اگر یہ تجلی کو برداشت کرلے تو پھر تم اپنی خواہش ظاہر کرنا اس کے بعد طور پر حضرت حق کی تجلی نے ظہور کیا تو پہاڑ کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہوگئے اور گرپڑے۔ پس آنحضرت ﷺ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بیہوشی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اس موقع پر بیہوش ہو کر گرپڑنے سے محفوظ ومستثنیٰ رکھے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اس استثنا کی وجہ ان کی کوہ طور کی بیہوشی ہو جس کو قیامت کی اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا واضح رہے کہ یہاں جس صعقہ ( یعنی قیامت کے دن بیہوش ہوجانے کا ذکر ہے اس سے وہ صعقہ مراد نہیں ہے جو موت و ہلاکت کے معنی میں ہے اور جس کا ظہور ابتداء قیامت میں صور پھونکے جانے کے بعد ہوگا کیونکہ اس صعقہ کے وقت، کہ جب پہلا صور پھونکے جانے کے بعد تمام عالم زیروزبر ہوجائے گا اور ہر متنفس کی موت و ہلاکت واقع ہوگی، بھلا آنحضرت ﷺ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہاں موجود ہوں گے کہ ان پر صعقہ طاری ہوگا، پھر یہ کہ اس صعقہ کے بعد بعث (یعنی دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا) ہوگا نہ کہ افاقت (یعنی بیہوشی کا زائل ہونا) اور یہ بات بھی متفقہ طور پر مسلم ہے کہ اس صعقہ کے بعد (میدان حشر میں) سب سے پہلے اٹھنے والے آنحضرت ﷺ ہی ہوں گے لہٰذا آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ فلاادری کان فیمن صعق الخمود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے جس صعقہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے وہ صعقہ مراد ہے جو بعث کے بعد میدان حشر میں میں پیش آئے گا کہ سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے اور اس کے بعد جب سب لوگ افاقہ پائیں گے یعنی ہوش میں آئیں گے تو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کو ہوش آئے گا، اس وقت آپ ﷺ یہ دیکھیں گے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہونے والوں میں شامل ہی نہیں ہونگے یا وہ بھی بیہوش ہوئے ہوں گے تو پھر ان کی بیہوشی آنحضرت ﷺ سے بھی پہلے زائل ہوچکی ہوگی۔ بہرحال اس ارشاد گرامی میں حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انبیاء کے درمیان شرف و فضیلت کے اعتبار سے کوئی فرق مراتب نہیں اور یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یا کسی بھی نبی کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ کو افضل نہ کہا جائے بلکہ اس ارشاد کا اصل مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کسی نبی کو خواہ وہ آنحضرت ﷺ ہی کی ذات کیوں نہ ہوں، کسی دوسرے نبی کے مقابلہ پر اس طرح اور اس انداز میں افضل و اشرف نہ کہو کہ اس (مفضول) نبی کی تحقیر و توہین ہو یا یہ ظاہر ہو کہ ایک نبی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اور دوسرے نبی کو مرتبہ سے گرایا جارہا ہے کیونکہ اس طرح کا اظہار فضیلت نہ صرف یہ کہ انبیاء کی عظمت اور ان کے احترام کے خلاف ہے، بلکہ مختلف نبیوں کے ماننے والوں کے درمیان باہمی خصومت و عداوت کا سبب بھی ہم۔ یا مذکورہ ارشاد گرامی کی مراد یہ کہ کسی نبی کے مقابلہ پر فضل وشرف کے تمام انواع کے ساتھ اس طرح فضیلت دینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ نفس نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں اور ہر نبی یکساں حیثیت رکھتا ہے۔ اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس ابن متی سے افضل ہے۔ لفظ متی حضرت یونس (علیہ السلام) کے باپ کا نام تھا، جیسا کہ قاموس میں مذکور ہے، لیکن جامع الاصول میں یہ ہے کہ متی ان کی ماں کا نام تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے خاص طور پر ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اولوالعزی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ کیا کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذاء پہنچائی تو وہ بےصبری کی وجہ اور غصہ کے مارے قوم کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشتی میں جابیٹھے۔ لہٰذا ان کا یہ طرز عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا موزوں ہے اور یہ کہنا غیر مناسب بات نہیں ہے کہ حضرت یونس کے مقابلہ پر فلاں نبی زیادہ افضل ہم لیکن آنحضرت ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے۔ تم کسی نبی کو کسی نبی پر فوقیت نہ دو۔ کا مطلب یہ ہے کہ یوں نہ کہو کہ فلاں نبی کے مقابلہ پر فلاں نبی افضل ہے۔ اور یہی مطلب اس ارشاد کا ہے کہ تم اللہ کے نبیوں میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو۔ اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اس ممانعت سے یا تو یہ مراد ہے کہ نفس نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو کیونکہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں، یا یہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر و توہین لازم آئے کیونکہ یہ چیز (یعنی کسی نبی کی تحقیر و توہین کا مرتکب ہونا) کفر ہے اور یا یہ کہ آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آنحضرت ﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل و اشرف کہنا درست ہے۔ لاتفضلوابین انبیاء اللہ لفظ تفضلوا مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں ضاء ہی کے ساتھ منقول ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ صاد کے ساتھ (لاتفصلوا) منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم اللہ کے نبیوں کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہ کرو اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے (لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ) 3۔ ال عمران 84)
Top