مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5612
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : بينا أيوب يغتسل عريانا فخر عليه جراد من ذهب فجعل أيوب يحثي في ثوبه فناداه ربه : يا أيوب ألم أكن أغنيتك عما ترى ؟ قال : بلى وعزتك ولكن لا غنى بي عن بركتك . رواه البخاري
حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ایک واقعہ :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت ایوب (علیہ السلام) (جب طویل اور سخت ترین بیماری کی آزمائش و امتحان میں سرخرو ہوئے اور ان کو صحت و عافیت نصیب ہوئی تو انہوں نے غسل صحت کیا اور اسی غسل صحت کے دوران وہ) برہنہ جسم نہا رہے تھے کہ (اللہ تعالیٰ نے ان کے گھر پر سونے کی ٹڈیاں برسانا شروع کیا اور وہ) سونے کی ٹڈیاں ان کے اوپر (یعنی دائیں بائیں) گرنے لگیں، حضرت ایوب (علیہ السلام) ان ٹڈیوں کو سمیٹ کر اپنے کپڑوں میں رکھنے لگے (سونے کی ٹڈیاں میں ان کا یہ انہماک دیکھ کر) ان کے پروردگار نے ان کو مخاطب کرکے کہا کہ ایوب ( علیہ السلام) جو چیز تم دیکھ رہے ہو کیا ہم نے اس سے تمہیں بےنیاز نہیں کردیا ہے؟ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے عرض کی! بیشک تیری عزت کی قسم تو نے مجھے اس چیز سے بےپرواہ کردیا ہے لیکن میں تیری نعمت کی کثرت اور تیری رحمت کی فراوانی سے ہرگز بےنیاز نہیں ہوں۔ (بخاری)

تشریح
برہنہ جسم نہا رہے تھے۔ کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم پر تہبند کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور تہبند باندھے ہوئے نہا رہے تھے، اس کی تائید آگے کی عبارت یحشی فی ثوبہ (سمیٹ سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھنے لگے )، میں پوشیدہ جگہ پر بالکل ننگا نہا رہے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوشیدہ جگہ پر بالکل ننگے نہانا مذکور ہوا اور اس کے شرعی جواز میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن آنحضرت ﷺ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ اپنے پروردگار سے شرم وحیا کی خاطر پوشیدہ جگہ پر بھی نہاتے وقت ستر پوشی افضل ہے اور آنحضرت ﷺ جس مکارم و اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں تشریف لائے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ان ٹڈیوں کو سمیٹ سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھنے لگے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) برستی ہوئی سونے کی ٹڈیوں کو ایک ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر یا دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر انہی تہبند میں سمیٹتے جاتے تھے جو انہوں نے نہانے کے لئے باندھ رکھا تھا یا کپڑے سے مراد وہ پوشاک ہے جو انہوں نے نہانے کے بعد پہنی ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کپڑا مراد ہو جو انہوں نے اس وقت تک پہنا نہ ہو بلکہ ان کے قریب ہی رکھا ہوا ہو۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کا مذکورہ خطاب، ناراضگی اور عتاب کے طور پر نہیں تھا بلکہ اظہار شفقت و محبت کے طور تھا کہ جب میں نے تمہارے گھر میں اتنا زیادہ سونا برسا دیا ہے اور تمہیں مالا مال کردیا ہے تو کیا ضروری ہے کہ تم ان ٹڈیوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے کپڑے میں رکھو؟ چناچہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بیشک تو نے مجھے اس قدرمالا مال کردیا ہے اور میرے گھر میں اتنا سونا بھر دیا ہے کہ میں ان ٹڈیوں کو جمع کرنے اور ان کو اٹھا اٹھا کر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں رکھتا لیکن تیری بارگاہ میں اپنے عجز و احتیاج کے اظہار کے لئے میں تیری رحمتوں کی مزید طلب سے بےنیاز بھی نہیں ہوسکتا خواہ تو مجھے کتنا ہی مالا مال کردے اور مجھ پر اپنی نعمتوں اور رحمتوں کی کتنی ہی بارش برسادے، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ان ٹڈیوں کا اٹھانے میں انہماک ودلچسپی رکھنا، دنیا کی حرص وطمع اور مال و دولت میں اضافہ کی خواہش کی بناء پر نہ تھا بلکہ حق تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت سے مستفید ہونے اور تشکروامتنان کی بنا پر تھا۔ اور ملاّ علی قاری نے لکھا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جائز مال و دولت میں اضافہ کی حرص اس شخص کے حق میں روا ہے جس کو اپنے نفس پر اعتماد ہو کہ اس مال و دولت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں کوتاہی نہیں ہوگی اور اس کو انہی مقاصد ومصارف میں خرچ کیا جائے گا جن سے حق تعالیٰ راضی وخوش ہوتا ہے۔
Top