مشکوٰۃ المصابیح - صور پھونکے جانے کا بیان - حدیث نمبر 5436
وعن عبد الله بن مسعود قال جاء حبر من اليهود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا محمد إن الله يمسك السماوات يوم القيامة على أصبع والأرضين على أصبع والجبال والشجر على أصبع والماء والثرى على أصبع وسائر الخلق علىأصبع ثم يهزهن فيقول أنا الملك أنا الله . فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبا مما قال الحبر تصديقا له . ثم قرأ ( وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسماوات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون ) متفق عليه .
قیامت کے دن کی کچھ باتیں یہودی عالم کی زبانی
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہود کا ایک عالم حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد ﷺ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر زمینوں کو ایک انگلی پر پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر پانی اور پانی کے نیچے کی تر مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو انگلی پر رکھے گا اور انگلیوں کو ہلاتے ہوئے فرمائے گا، میں ہوں بادشاہ میں ہوں اللہ ( یہ سن کر) رسول کریم ﷺ اس یہودی عالم کی زبانی ان باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہوئے مسکرائے اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌ بِيَمِيْنِه سُبْحٰنَه وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 39۔ الزمر 67) اور ( افسوس ہے کہ) ان لوگوں نے ( یعنی مشرکوں نے) خدائے تعالیٰ کی کچھ عظمت نہ کی۔۔۔ جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی حالانکہ ( اس کی وہ شان ہے کہ) ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹتے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں ( اور کوئی دوسرا ایسا ہے پس) وہ پاک و برتر ہے ان کے شرک سے ( اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔

تشریح
اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا اور ان انگلیوں کو ہلاتے ہوئے فرمائے گا یہ سارے الفاظ بطور کنایہ و تمثیل ہیں اور حق تعالیٰ کی قدرت جلیلہ و عظمت کاملہ کے غلبہ و اظہار کی تصویر کشی کے لئے ہیں، نہ کہ انگلیوں اور انگلیوں کے ہلانے کے حقیقی معنی ملحوظ و مقصود ہیں اس کی نظیر اہل عرب کا اسلوب بیان ہے کہ مثلا وہ جب کسی شخص کو جود وسخاوت جیسے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے دونوں ہاتھ فراخ و کشادہ ہیں اگرچہ وہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہی کیوں نہ ہو، کہ اس کے دونوں ہاتھ کسی حادثہ وغیرہ میں کٹ گئے ہوں یا پیدائشی طور پر بےہاتھ والا ہو اسی طرح جب وہ کسی شخص کو سلطنت و حکومت کے وصف کے ساتھ ذکر کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ فلاں شخص تخت پر بیٹھا! اگرچہ اس کے بیٹھنے کے لئے کبھی کوئی تخت یا کوئی بھی چیز نہ رہی ہو پس اگر اہل عرب کے ان محاورات اور اس اسلوب بیان پر نظر ہو تو پھر قرآن و حدیث کے ان متشابہات کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے جن میں اللہ کی طرف ہاتھ، انگلی اور تخت وغیرہ کی نسبت کی گئی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے یہ مراد ہے اور تخت سے یہ مراد ہے۔ اس یہودی عالم کی مذکورہ باتیں سن کر آنحضرت ﷺ کا اظہار تعجب کرنا اور مسکرانا اس کی تکذیب کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کی تصدیق کے لئے اور اس کو راست گو ظاہر کرنے کے لئے تھا، چناچہ آپ ﷺ نے بعد میں مذکورہ بالا آیت کی تلاوت اسی لئے فرمائی تاکہ یہودی نے جو کچھ کہا ہے اس کی تفصیلی وضاحت ہوجائے۔
Top