مشکوٰۃ المصابیح - صور پھونکے جانے کا بیان - حدیث نمبر 5433
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين النفختين أربعون قالوا يا أبا هريرة أربعون يوما ؟ قال أبيت . قالوا أربعون شهرا ؟ قال أبيت . قالوا أربعون سنة ؟ قال أبيت . ثم ينزل الله من السماء ماء فينبتون كما ينبت البقل قال وليس من الإنسان شيء لا يبلى إلا عظما واحدا وهو عجب الذنب ومنه يركب الخلق يوم القيامة . متفق عليه . وفي رواية لمسلم قال كل ابن آدم يأكله التراب إلا عجب الذنب منه خلق وفيه يركب . ( متفق عليه )
دونوں نفخوں کے درمیان کتنا وقفہ ہوگا ؟
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دونوں نفخوں ( یعنی ایک مرتبہ مارنے کے لئے اور دوسری مرتبہ جلانے کے لئے دونوں مرتبہ پھونکے جانے والے صور کے درمیان کا وقفہ چالیس ہوگا لوگوں نے ( یہ سن کر) پوچھا کہ ابوہریرہ ؓ! کیا ( چالیس سے) چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم! پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا چالیس مہینے مر اد ہیں؟ ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم ان لوگوں نے پھر پوچھا کہ کیا چالیس سال مراد ہیں؟ ابوہریرہ ؓ نے پھر یہی جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان حدیث کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور اس پانی سے لوگ ( یعنی انسان اور تمام جاندار) اس طرح اگیں کہ جیسے سبزہ اگتا ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا انسان کے جسم وبدن کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو پرانی اور بوسیدہ نہ ہوجاتی ہو ( یعنی گل سڑ کر ختم نہ ہوجاتی ہو) علاوہ ایک ہڈی کے جس کو عجب الذنب کہتے ہیں اور قیامت کے دن ہر جاندار کی اسی ہڈی سے اس کے تمام جسم کو مرکب کیا جائے گا۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ جواب دینا کہ مجھے نہیں معلوم، اس بنا پر تھا کہ یا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس حدیث کو اسی طرح مجملا سنا تھا یا سنا تو مفصل تھا مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ حضور ﷺ چالیس کے بعد کیا فرمایا تھا، چناچہ انہوں نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ واضح کیا کہ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ چالیس سے حضور ﷺ کی مراد چالیس دن تھے، یا چالیس مہینے اور یا چالیس سال بہر حال اس حدیث میں چالیس کا لفظ مجمل نقل ہوا ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں یہ لفظ تفصیل کے ساتھ ہے اور وہ چالیس برس ہے پس دونوں نفخوں کے درمیان جو وقفہ ہوگا وہ چالیس سال کے برابر ہوگا۔ عجب الذنب اس ہڈی کو کہتے ہیں جو ریڑھ کے نیچے دونوں کو لھوں کے درمیان ہوتی ہے جہاں جانور کی دم کا جوڑ ہوتا ہے اور عام طور پر اس کو ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جاتا ہے بعض روایتوں میں عجب الذنب میں عجب کے بجائے عجم کا لفظ ہے ویسے جوڑ ہوتا ہے اس لئے اس کا نام عجب الذنب یا عجم الذنب ہے حاصل یہ کہ ریڑھ کی ہڈی گویا انسان کا بیچ ہے کہ اسی سے ابتدائی تخلیق ہوتی ہے اور قیامت کے دن دوبارہ اسی کے ذریعہ تمام اعضاء جسمانی کو از سر نو ترتیب دیا جائے گا بس مرنے کے بعد انسان یا کوئی بھی جاندار گل سڑ کرنا بود ہوجاتا ہے اور اس کے پورے جسم کی ہڈیوں کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی نہ تو گلتی سڑتی ہے اور نہ اس کو مٹی کھاتی ہے واضح رہے کہ یہ ان لوگوں کی حالت کا بیان ہے جن کے بدن گل سڑ جاتے ہیں انبیاء (علیہم السلام) اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا سارا بدن محفوظ رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام کیا ہے، یہی بات ان لوگوں کے حق میں کہی جاسکتی ہے جو اس بارے میں انبیاء کے حکم میں ہیں یعنی شہداء اور اولیاء اللہ اور وہ مؤذن جو محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اذان دیتے ہیں چناچہ یہ سب لوگ اپنی قبروں میں اسی طرح زندہ ہیں جس طرح اس دنیا میں زندہ لوگ ہیں۔
Top