مشکوٰۃ المصابیح - حساب قصاص اور میزان کا بیان - حدیث نمبر 5474
عن عائشة قالت جاء رجل فقعد بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن لي مملوكين يكذبونني ويخونونني ويعصونني وأشتمهم وأضربهم فكيف أنا منهم ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم القيامة يحسب ما خانوك وعصوك وكذبوك وعقابك إياهم فإن كان عقابك إياهم بقدر ذنوبهم كان كفافا لا لك ولا عليك وإن كان عقابك إياهم دون ذنبهم كان فضلا لك وإن كان عقابك إياهم فوق ذنوبهم اقتص لهم منك الفضل فتنحى الرجل وجعل يهتف ويبكي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أما تقرأ قول الله تعالى ( ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال حبة من خردل أتينا بها وكفى بنا حاسبين ) فقال الرجل يا رسول الله ما أجد لي ولهؤلاء شيئا خيرا من مفارقتهم أشهدك أنهم كلهم أحرار . رواه الترمذي .
حساب کتاب کا خوف
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آکر بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے پاس غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، چناچہ میں ( از راہ تادیب و تنبیہ) ان کو برا بھلا کہتا ہوں اور ان کو مارتا ہوں تو ان کی وجہ سے قیامت کے دن ( اللہ تعالیٰ کے ہاں) میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ( یعنی کیا مجھے ان کو برا بھلا کہنے ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے پیٹنے کا حساب دینا ہوگا اور ان چیزوں کی وجہ سے میرا مواخذہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا) اور ہر شخص کے ایک ایک عمل اور ایک ایک چیز کی پوچھ گچھ ہوگی) تو غلاموں نے تمہارے مال میں جو خیانت کی ہوگی، تمہاری جو نافرمانی کی ہوگی اور تمہارے ساتھ جو جھوٹ بولا ہوگا، ان سب کا حساب ہوگا، اسی طرح تم نے ان کو جو کچھ سزا دی ہوگی اس کا بھی حساب ہوگا پس اگر تمہاری دی ہوئی سزا ( رائج ضابطہ اخلاق و قانون اور عام عادت معمول کے مطابق) ان کے جرائم کے بقدر ثابت ہوئی تو تمہارا برابر سرابر رہے گا کہ نہ تمہیں کوئی ثواب ملے گا اور نہ تم پر کئی عذاب ہوگا کیونکہ اس صورت میں کہا جائے گا کہ تم نے ان کے ساتھ حالات کے مطابق اور مباح معاملہ کیا ہے جس پر تم کسی مواخذہ و عذاب کے مستوجب نہیں ہوگے) اور تم نے ان کو سزا دی ہوگی وہ اگر ان کے جرائم سے کم ثابت ہوگی تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا ( یعنی تمہارا ان کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا ان پر تمہارے لئے ایک ایسے حق کو واجب کر دے کہ اگر تم چاہو گے تو اس کے عوض تمہیں انعام دیا جائے گا ورنہ نہیں) اور تمہاری دی ہوئی سرزا ان کے جرائم سے زیادہ ہوگی تو پھر ان کے لئے تم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا ( یعنی اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے گا کہ تم نے چونکہ اپنے ان غلاموں کو ان کے جرائم سے زیادہ سزا دی تھی جس کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا لہذا اب تم اپنے ان غلاموں کو اس زیادتی کا بدلہ دو ) وہ شخص ( آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) الگ جا بیٹھا اور رونے چلانے لگا پھر رسول کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد کو مؤ کد اور ثابت کرنے کے لئے) فرمایا کہ کیا تم ( قرآن کریم میں) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے ہو کہ ونضح الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیأ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اور قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کی میزان کھڑی کریں گے ( جس کے ذریعہ سب کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا) پس کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ( یعنی جس کا بھی حق ہوگا وہ اس کو یقینًا دلوایا جائے گا اور اگر ( کسی کا) عمل رائی کے دانہ کے برابر ہوگا تو ( اس سے صرف نظر نہیں کی جائے گا بلکہ) ہم اس کو (بھی وہاں) حاضر کریں گے اور ہم حساب لینے ولے کافی ہیں ( یعنی ہمارے وزن اور حساب کے بعد حساب کتاب کی اور کسی مرافعہ کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سے بڑھ کر عدل و انصاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے اور اس وقت ہمارا فیصلہ بالکل آخری فیصلہ ہوگا جس پر کسی کو شک وشبہ کرنے کی ہم گنجائش ہی نہیں چھوڑیں گے) اس شخص نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے اور ان غلاموں کے حق میں ان کی جدائی سے بہتر اور کوئی بات نہیں جانتا ( یعنی اس صورت میں میرا خیال ہے کہ قیامت کے دن کے محاسبہ ومواخذاہ سے بچنے اور وہاں کی جواب دہی سے محفوظ رہنے کی خاطر میرے اور میرے ان غلاموں دونوں کے حق میں سب سے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجھ سے الگ ہوجائیں بایں طور کہ میں ان کو آزادی دے دوں) لہٰذا میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ سب غلام آزاد ہیں۔ ( ترمذی)

تشریح
میرے پاس غلام ہیں کے بارے میں احتمال ہے کہ اس شخص کے پاس غلام اور باندی، دونوں ہوں گے پس یہاں صرف غلام کا ذکر تغلیبا ہے۔ ط کان کفافا ( تو تمہارا معاملہ برابر رہے گا اصل میں کفاف اس چیز کو کہتے ہیں جو ضرورت و حاجت کے بقدر ہو، پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے ان غلاموں کو ان کے جرائم کے برابر سزا دی ہوگی تو تمہارا اور ان غلاموں کا معاملہ برابر سرابر رہے گا کہ قیامت کے دن نہ تو ان غلاموں پر تمہارا کوئی حق واجب ہوگا اور نہ تمارے اوپر ان غلاموں کا کوئی حق آئے گا۔ کان فضلا لک ( تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا) فضل اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب حق سے زیاد ہو! پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا ان غلاموں کو ان جرائم سے کم سزا دینا قیامت کے دن تمہارے حق میں ایک ایسی خوبی بن جائے گا کہ اگر تم چاہو گے تو تمہیں اس کا اجر و انعام ملے گا لیکن واضح رہے کہ اجروانعام سے مراد حسن ثواب، قربت ونزدی کی اور درجہ و مرتبہ کی بلندی ہے نہ کہ نفس فعل کی جزاء کیونکہ بعض خوبی یا یوں کہہ لیجئے کہ بعض سچا عمل اجروثواب کے حسن و اضافہ اور درجہ و مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے تو مفید ہوتا ہے مگر نفس فعل کے اعتبار سے کسی الگ اجر وثواب کو واجب نہیں کرتا کہ عمل اختیار کرنے والا خواہ طالب ہو یا نہ ہو اس کو بہر صورت اجروثواب ملے، پس اس شخص کا اپنے غلاموں کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا بھی اسی درجہ کی خوبی ہوگی کہ اگر وہ چاہے گا تو اس کی اس خوبی کو اس کے اجروثواب میں حسن و اضافہ اور اس کے مرتبہ ودرجہ کی بلندی کا سبب بنادیا جائے گا اور اگر وہ نہیں چاہے گا تو پھر اس کے نامہ اعمال میں اس خوبی کا کوئی الگ ثواب نہیں لکھا جائے گا۔ اس حدیث کے ذریعہ مالک و غلام اور آقاوخادم کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان معاملات کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اپنے غلام اپنے خادم اور اپنے نوکروں کے ساتھ جانوروں کا ساسلوک کرتے ہیں، ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی معمولی خطاؤں پر جس طرح بڑی بڑی سزائیں دیتے ہیں اور ان کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کو سخت جسمانی اور روحانی اذیت و تکلیف پہنچاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے حق میں کانٹے بوتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چائے کہ وہ دن یقینا آنے والا ہے جب احکم الحاکمین کی بارگاہ میں انہیں اپنے غلاموں اپنے نوکرچاکر اور اپنے خادموں کے تعلق سے اپنے ایک ایک فعل وعمل، ایک ایک برتاؤ اور ایک ایک زیادتی کی جواب دہی کرنی پڑے گی اور سخت حساب ومواخذہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ رہی ان صحابی کی بات جنہوں نے یہ حدیث سن کر، قرآن کی آیت سن کر اپنے حق میں یہی بہتر جانا کہ وہ اتنا بڑا دنیاوی نقصان برداشت کرکے اپنے غلاموں کو آزاد کردیں، تو ان کا تقوی، ان کا کمال احتیاط اور خوف اللہ سے ان کے دل کا معمور ہونا پوری طرح ظاہر ہوتا ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ کمال عبدیت یہی ہے کہ انسان اس چیز کے سائے سے بھی اجتناب کرے جو کسی بھی درجہ میں مولیٰ کی ناراضگی اور آخرت کے نقصان کا خدشہ وواہمہ رکھتی ہو۔
Top