حساب، قصاص اور میزان کا بیان
حساب کے معنی ہیں گننا، شمار کرنا! اور یہاں سے مراد ہے قیامت کے دن بندوں کے اعمال و کردار کو گننا اور ان کا حساب کرنا! واضح رہے کہ حق تعالیٰ کی علیم وخبیر ذات کو سب کچھ معلوم ہے اور بندہ اس دنیا میں جو بھی عمل کرتا ہے وہ اس پر روشن وعیاں ہے لیکن قیامت کے دن بندوں کے اعمال و کردار کا حساب اس لئے ہوگا تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور تمام مخلوق پر روشن ہوجائے کہ دنیا میں کس نے کیا کیا ہے اور کون کس درجہ کا آدمی ہے! پس قیامت کے دن کا یہ حساب قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اس کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔ قصاص کے معنی بدلہ ومکافات کے ہیں یعنی جس شخص نے جیسا کیا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی کرنا! مثلا اگر کسی شخص نے کسی شخص کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کو بھی قتل کرنا اور اگر کسی شخص نے کسی شخص کو زخمی کیا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کو بھی زخمی کرنا قصاص کہلاتا ہے قیامت کے دن، جان کا بدلہ جان، زخم اور تکلیف ہوگا اور دنیا میں جس نے جس کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہوگا کہ خواہ اس کو آزردہ کیا ہو اور خواہ کوئی بھی جسمانی اور روحانی اذیت پہنچائی ہو اور وہ چیونٹی یا مکھی ہی کیوں نہ ہو، تو قیامت کے دن اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا اگرچہ وہ مکلف نہ ہو چناچہ تمام حیوانات کو بھی قیامت کے دن اسی لئے اٹھایا جائے گا تاکہ ان کو بھی ایک دوسرے کا بدلہ دلوایا جاسکے مثلا اگر کسی سینگ والی بکری نے کسی بےسینگ بکری کو مارا ہوگا تو اس دن اس کو قصاص یعنی بدلہ دینا ہوگا۔ میزان اس چیز سے تعبیر ہے جس کے ذریعہ بندوں کے اعمال کی مقدار و حیثیت جانی جاسکے اور جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ چیز میزان یعنی ترازو ہی کی شکل میں ہوگی جس کے دو پلے ہوں گے اور ایک زبان ہوگی اور دونوں پلوں کے درمیان مشرق ومغرب جیسا فاصلہ ہوگا اس میزان کے ذریعہ بندوں کے اعمال تو لے جائیں گے یعنی ایک پلے میں نیکیوں کے اعمال نامے اور دوسرے پلے میں برائیوں کے اعمال نامے رکھے جائیں گے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حسنات یعنی نیک اعمال کو اچھی صورتوں میں اور سیأت یعنی برے عمل کو بری صورتوں میں ڈھال دیا جائے گا اور ان دونوں کو تولا جائے گا لیکن بعض روایتوں میں پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں جو نصوص ہیں ان کا ظاہری مفہوم اسی پر دلالت کرتا ہے۔