مشکوٰۃ المصابیح - معراج کا بیان - حدیث نمبر 5791
عن جابر أنه سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لما كذبني قريش قمت في الحجر فجلى الله لي بيت المقدس فطفقت أخبرهم عن آياته وأنا أنظر إليه . متفق عليه
بیت المقدس کا آنحضرت کے سامنے لایا جانا
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا! جب قریش نے ( شب معراج میں میرے بیت المقدس جانے کے بارے میں) مجھے جھٹلایا ( اور بیت المقدس کی عمارتی علامات اور نشانیاں مجھ سے پوچھنے لگے) تو میں حجر یعنی حطیم میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے لئے نمایاں کردیا، چناچہ میں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر اس کی نشانیاں اور علامات ان لوگوں کو بتاتا رہا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے نمایاں کردیا کا مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر جب کہ قریش مکہ بیت المقدس کی عمارتوں اور ان کی نشانیوں کے بارے میں مجھ سے سوالات کر رہے تھے اور میرے ذہن میں بیت المقدس کا پورا عمارتی نقشہ اور اس کی نشانیاں محفوظ نہ رہنے کے سبب میں ان عمارتوں کو دوبارہ دیکھے بغیر ان کے سوالات کے جواب نہ دے سکتا تھا، قادر مطلق نے میری یوں مدد فرمائی کہ میرے اور بیت المقدس کے درمیان کے سارے فاصلے سمیٹ دئیے اور میری نگاہوں کے سامنے سے وہ ساری رکاوٹیں دور کردیں جو میرے اور بیت المقدس کے درمیان حائل تھیں اس طور سے پورا بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے آگیا اور میں کسی اشتباہ و احتمال کے بغیر اس کی ایک ایک چیز اچھی طرح دیکھ کر قریش مکہ کے ایک ایک سوال کا بالکل صحیح جواب دینے پر قادر ہوگیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ پورا بیت المقدس اٹھا کر لایا گیا ہو اور آنحضرت ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا ہو، جیسا کہ ایک روایت میں، جو حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے، بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چناچہ مسجد اقصیٰ اٹھا کر لائی گئی اور دار عقل کے پاس رکھی گئی۔۔۔! اور حقیقت یہ ہے کہ ظہور معجزہ میں کامل ترین صورت بھی یہی ہے، جیسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں ثابت ہے کہ بلقیس کا تخت ایک لمحہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ معراج کا باب ختم ہو رہا ہے، لیکن مؤلغ کتاب نے اس باب میں ایسی کوئی حدیث نقل نہیں کی جس سے بارگاہ رب العزت میں آنحضرت ﷺ کے حاضر ہونے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہوتا؟ دراصل علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا یا نہیں اور اگر دیدار حاصل ہوا تو وہ سر کی آنکھوں سے تھا یہ دل کی آنکھوں سے؟ واضح رہے کہ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ایک الگ چیز ہے اور جاننا ایک دوسری چیز ہے، بعض حضرات سے جن میں صحابہ کرام اور تابعین عظام میں سے بھی کچھ حضرات شامل ہیں، یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ کو شب معراج میں دیدار الٰہی تو حاصل ہوا لیکن وہ دیدار بصری نہیں تھا، قلبی تھا یعنی آپ ﷺ نے دل کی آنکھوں سے دیکھا، سر کی آنکھوں سے نہیں! جب کہ جمہور صحابہ وتابعین اور علماء کا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور محققین کے نزدیک یہی قول راجح اور حق ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل اللہ تعالیٰ کے دیدار کے باب میں پہلے گذر چکی ہے۔
Top