مشکوٰۃ المصابیح - معراج کا بیان - حدیث نمبر 5788
وعن ابن شهاب عن أنس قال : كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فرج عني سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغه في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا . قال جبريل لخازن السماء : افتح . قال : من هذا ؟ قال جبريل . قال : هل معك أحد ؟ قال : نعم معي محمد صلى الله عليه و سلم . فقال : أرسل إليه ؟ قال : نعم فلما فتح علونا السماء الدنيا إذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة إذا نظر قبل يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح . قلت لجبريل : من هذا ؟ قال : هذا آدم وهذه الأسودة عن يمينه وعن شماله نسم بنيه فأهل اليمين منهم أهل الجنة والأسودة عن شماله أهل النار فإذا نظر عن يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها : افتح فقال له خازنها مثل ما قال الأول قال أنس : فذكر أنه وجد في السماوات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ولم يثبت كيف منازلهم غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا وإبراهيم في السماء السادسة . قال ابن شهاب : فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان . قال النبي صلى الله عليه و سلم : ثم عرج بي حتى وصلت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام وقال ابن حزم وأنس : قال النبي صلى الله عليه و سلم : ففرض الله على أمتي خمسين صلاة فرجعت بذلك حتى مررت على موسى . فقال : ما فرض الله لك على أمتك ؟ قلت : فرض خمسين صلاة . قال : فارجع إلى ربك فإن أمتك لا تطيق فراجعت فوضع شطرها فرجعت إلى موسى فقلت : وضع شطرها فقال : راجع ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت فوضع شطرها فرجعت إليه فقال : ارجع إلى ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك فراجعته فقال : هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي فرجعت إلى موسى فقال : راجع ربك . فقلت : استحييت من ربي ثم انطلق بي حتى انتهى إلى سدرة المنتهى وغشيها ألوان لا أدري ما هي ؟ ثم أدخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك . متفق عليه
معراج کا ذکر
اور حضرت ابن شہاب زہری (رح) ( تابعی) حضرت انس ابن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت ابوذر بیان کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں مکہ میں اپنے گھر میں (سویا ہوا) تھا کہ ( اچانک) مکان کی چھت کھلی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے، انہوں نے میرا سینہ چاک کر کے آب زمزم سے دھویا پھر وہ سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اس کو میرے سینہ میں الٹ دیا گیا اور پھرے سینہ ( کی چا کی) کو ملا کر برابر کردیا گیا۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف چڑھا کرلے گئے، جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ ( دروازہ کھولو، داروغہ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ اور کوئی بھی ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ داروغہ نے پوچھا کیا ان کو بلوایا گیا ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں!! چناچہ دروازہ کھولا گیا اور جب ہم آسمان دنیا کے اوپر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور ( ان کی اولاد وزریات میں سے) کچھ لوگ ان کے دائیں اور کچھ بائیں بیٹھے ہوئے ہیں ( پھر میں نے یہ بھی دیکھا کھ) جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنسنے لگتے ہیں ( کیونکہ اس طرف دوزخی لوگ تھے جن کو دیکھنا رنج وغم کا باعث تھا) انہوں نے ( سلام و جواب بعد میری طرف مخاطب ہو کر) کہا پیغمبر صالح اور نیک بخت بیٹے کو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا! یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور یہ لوگ جو ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں، ان میں سے جو لوگ ان کے دائیں بیٹھے ہیں وہ جنتی ہیں اور جو لوگ ان کے بائیں بیٹھے ہیں وہ دوزخی ہیں، اسی لئے جب یہ ( آدم (علیہ السلام) اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں وہ جنتی ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو روتے ہیں، اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور انہوں نے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو اس کے داروغے نے بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان کے داروغہ نے کیا تھا۔ راوی کہتے ہیں! غرضیکہ اسی طرح آنحضرت ﷺ نے تمام آسمانوں پر پہنچنے اور وہاں حضرت آدم (علیہ السلام)، حضرت ادریس (علیہ السلام)، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کا ذکر فرمایا لیکن ان کے منازل و مقامات کی کیفیت و احوال کو بیان نہیں کیا، صرف حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے آسمان پر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چھٹے آسمان پر ملنے کا ذکر فرمایا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ کو ابن حزم نے بتایا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوحبہ انصاری نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! پھر مجھ کو اور اوپر لے جایا گیا، یہاں تک میں ایک ہموار اور بلند مقام پر پہنچا جہاں قلموں سے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں ابن حزم اور حضرت انس یہ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے کی طرف سے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، چناچہ ( پچاس فرض نمازوں کا یہ حکم اور اس پر عمل آوری کا ارادہ لے کر) میں واپسہوا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا تو انہوں نے پوچھا کہ پروردگار نے تمہارے ذریعہ تمہاری امت پر کیا چیز فرض کی ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ ( اور ان نمازوں میں تخفیف کی درخواست کرو) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا نہیں کرسکے گی۔ اس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ کو بارگاہ رب العزت میں واپس کیا ( یعنی ان کے کہنے پر میں نے پروردگار کی بارگاہ میں واپس جا کر درخواست پیش کی) اور ان میں سے کچھ نمازیں ( یعنی دس نمازیں) کم کردی گئیں۔ میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ( پچاس نمازوں) کا کچھ حصہ معاف کردیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے پروردگار کے پاس پھر جاؤ ( اور عرض معروض کر کے مزید تخفیف کی درخواست کر) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا کرنے کی بہی طاقت نہیں رکھے گی۔ میں پھر واپس گیا ( اور مزید تخفیف کے لئے عرض معروض کی) چناچہ ان میں سے کچھ اور نمازیں کم کردی گئیں، اس کے بعد پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ ( اور مزید تخفیف کی درخواست کرو) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھی گی، چناچہ میں پھر گیا ( اور پروردگار سے خوب عرض معروض کی) پس ( پروردگار نے مزید تخفیف کر کے پانچ نمازوں کا حکم دے دیا تو) پروردگار نے فرمایا فرض تو یہ پانچ نمازیں ہیں لیکن ( اجر وثواب کے اعتبار سے) پچاس نمازوں کے برابر ہیں، میرا قول تبدیل نہیں ہوتا۔ میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ اب پانچ نمازیں فرض رہ گئی ہیں) تو انہوں نے کہا کہ اب مجھ کو بارگاہ رب العزت میں واپس جانے ( اور پانچ نمازوں میں تخفیف کی درخواست کرنے) کا مشورہ دیا، لیکن میں کہا کہ اب مجھ کو اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے۔ اس کے بعد ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ) مجھ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا جس پر ( جلال کبریائی کے انوار یا ملائکہ کے پروں کی چمک یا کسی اور چیز کے) اس طرح کے رنگ چھائے ہوئے تھے جن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی ( یعنی یا تو اس وقت جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس کو اب بیان کرنے پر قادر نہیں ہوں یا یہ کہ اس وقت میں ذات حق کی طرف اس طرح متوجہ اور مستغرق تھا کہ میری نظر کو سدرۃ المنتہی پر چھائے ہوئے رنگوں کی حقیقت تک پہنچنے اور جاننے کا موقع ہی نہیں ملا) اس کے بعد مجھ کو جنت میں پہنچایا گیا وہاں میں نے موتیوں کے گنبد دیکھے اور یہ بھی دیکھا کہ جنت کی مٹی مشک تھی۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ فرج یہ تخفیف مجہول کا صیغہ ہے اور بعض حضرات نے اس کو تشدید کے ساتھ یعنی فرج بھی نقل کیا ہے، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہیں، یعنی حضرت جبرائیل مکان کی چھت ہٹا کر اوپر سے آئے۔ اسراء اور معراج کے سفر کی ابتدا اکہاں سے ہوئی اس سلسلہ میں بظاہر مختلف ومتضاد روایتیں منقول ہیں۔ بعض روایتوں میں حطیم، بعض میں حجر کا ذکر ہے جیسا کہ سابق حدیث سے معلوم ہوا، بعض روایتوں میں شعب ابی طالب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں یہ ذکر ہے کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو لینے آئے تو اس وقت آپ ﷺ حضرت ام ہانی کے مکان میں بستر استراحت پر آرام فرما تھے اور یہی روایت مشہور ہے۔ ان تمام روایتوں میں بہترین تطبیق وہ ہے جو صاحب فتح الباری نے لکھی ہے یعنی اس شب میں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا نبی کریم ﷺ حضرت ام ہانی کے مکان میں سوئے ہوئے تھے جو شعب ابی طالب میں واقع تھا چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مکان کی چھت پھاڑ کر آنحضرت ﷺ کے باس تشریف لائے اور آپ ﷺ کو جگا کر مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے پاس لائے جہاں حطیم اور حجر ہے، آپ ﷺ حطیم میں لیٹ گئے اور چونکہ نیند کا اثر باقی تھا اس لئے آپ ﷺ وہاں پھر سوگئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے پھر آپ ﷺ کو جگایا اور شق صدر وغیرہ کے مراحل سے گذارنے کے بعد آپ ﷺ کو مسجد حرام کے دروازہ پر لائے جہاں آپ ﷺ کو براق پر سوار کر کے مسجد اقصی لے جایا گیا۔ پس اسراء اور معراج کے سفر کی ابتداء دراصل حضرت ام ہانی کے گھر سے ہوئی جس کو آپ ﷺ نے اپنا گھر اس اعتبار سے فرمایا کہ آپ ﷺ اس شب میں اسی گھر میں مقیم تھے۔ اور پھر میرے سینہ کو ملا کر برابر کردیا گیا اس شق صدر کے سلسلہ میں وضاحت پیچھے پہلی فصل کی پہلی حدیث کے تحت گزر چکی ہے، وہاں حدیث کے جو الفاظ تھے ان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے قلب مبارک کو سونے کے طشت میں دھویا گیا اور اس کے بعد علم و ایمان سے بھر آگیا، لیکن یہاں حدیث میں جو الفاظ ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے سینہ مبارک کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا طشت لایا گیا اور اس کو سینہ مبارک میں الٹ دیا گیا۔ تاہم ان دونوں میں کوئی گہرا تضاد نہیں ہے، صورت واقعہ کی ترتیب یہ تھی کہ آپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کیا گیا پھر قلب مبارک نکال کر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا طشت لایا گیا اور اس ایمان و حکمت کو آپ ﷺ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیا۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف چڑھا کرلے کرلے گئے۔ یہاں نہ تو براق لائے جانے اور اس پر آنحضرت ﷺ کو سوار کرنے کا ذکر ہے اور نہ مسجد اقصیٰ میں لے جانے کا ذکر ہے۔ اسی بناء پر بعض حضرات نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء اور معراج دو الگ الگ واقعے ہیں اور دونوں واقعے الگ الگ شب میں پیش آئے، نیز براق کی سواری اسراء کی شب میں تھی جب کہ معراج کی شب میں سیڑھی کے ذریعہ آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔ اور یہ لوگ جو ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ چونکہ منقول ہے کہ مؤمنوں کی روحیں تو علیین میں چین کرتی ہیں اور کافروں کی روحیں سجین میں محبوس ہیں لہٰذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب روحیں ایک مقام میں ( یعنی آسمان پر حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں) کیسے جمع ہوئیں؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید ایک وقت معین میں یہ روحین حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہوتی ہوں گی اور آنحضرت ﷺ جب آسمان دنیا پر پہنچے اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو وہ وہی وقت تھا جب تمام روحیں حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیش تھیں۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں جو روحیں دیکھی تھیں وہ ان لوگوں کی تھیں جو اس وقت تک دنیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور وہ روحیں اپنے اپنے اجسام میں نہیں گئی تھیں اور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے رہنے کی جگہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں ہو، نیز حضرت آدم (علیہ السلام) ان روحوں کا انجام جانتے تھے کہ جو روحیں دائیں طرف ہیں وہ دنیا میں اچھے عقائد و اعمال اختیار کر کے جنت میں جائیں گی اور جو روحیں بائیں طرف ہیں وہ دنیا میں برے عقائد و اعمال اختیار کر کے دوزخ میں جائیں گی۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چھٹے آسمان پر ملنے کا ذکر کیا حضرت شہاب کی یہ روایت جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شب معراج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے آنحضرت ﷺ کی ملاقات چھٹے آسمان پر ہوئی تھی، گویا اس روایت کے مطابق ہے جو حضرت انس ؓ سے ایک دوسرے روای حضرت شریک نے نقل کی ہے، ان روایتوں کی علاوہ باقی اور تمام روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ساتویں آسمان پر ہوئی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ معراج کا واقعہ ایک سے زائد مرتبہ پیش آیا تھا تو اس صورت میں ان متضاد روایتوں سے کوئی اشکال پیدا نہ ہوگا، ہاں اشکال اس وقت پیدا ہوگا جب یہ کہا جائے کہ جسمانی معراج کا واقعہ ایک ہی مرتبہ پیش آیا تھا جیسا کہ معتمد و مشہور قول ہے، دریں صورت اس اشکال کا جواب یہ ہوگا کہ معراج کے سلسلہ میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ صحیح روایت وہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا تو وہ بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے اور یہ بات کسی اختلاف کے بغیر ثابت ہے کہ بیت المعمور ساتویں آسمان پر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں راوی نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تمام آسمانوں پر پہنچنے اور وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) وغیرہ سے ملاقات کا ذکر فرمایا لیکن ان کے منازل و مقامات کو بیان نہیں فرمایا اس سے یہ خود ثابت ہوجاتا ہے کہ راجح اور زیادہ قابل اعتماد روایت وہی قرار پائے گی جس میں ہر نبی اور رسول کے بارے میں وضاحت کے ساتھ ذکر ہے کہ کس نبی سے کس آسمان پر ملاقات ہوئی۔ حاصل یہ کہ آسمانوں کے تعین اور انبیاء کرام (علیہم السلام) سے ملاقات کے بارے میں حدیثوں میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ اختلاف راویوں کے اشتباہ کی وجہ سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چھٹے آسمان پر بھی دیکھا ہو اور ساتویں آسمان پر بھی، اس لئے کسی روایت میں چھٹے آسمان پر ملاقات کو بیان کیا گیا اور کسی روایت میں ساتویں آسمان پر ملاقات کا ذکر ہے۔۔۔۔ جہاں قلموں کے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں یہ مقام صریف الاقالم، کا ذکر ہے۔ صریف الاقلام قلم کی اس آواز کو کہتے ہیں جو لکھنے کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب آنحضرت ﷺ کو اور عروج ہوا تو آپ ﷺ اس بلند مقام پر پہنچے جہاں قضاء وقدر کے قلم مشغول کتابت تھے، ملائکۃ اللہ امور الہٰی کی کتابت اور احکام الٰہی کو لوح محفوظ سے نقل کرنے میں مصروف تھے، کتابت اور قلم چلنے سے جو آ واز پیدا ہو رہی تھی اس کو آپ ﷺ نے سنا۔ بعض علمائے محققین نے یہ حدیث کے اس جملہ کی وضاحت میں لکھا ہے! آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اس عروج کے دوران میں اس مقام تک لے جایا گیا جہاں رفعت مرتبہ کے سبب اس جگہ تک پہنچنا بھی نصیب ہوا جو کائنات کے نظام قدرت احکام الٰہی کے صدور اور مخلوق کے تمام خدائی نظم ونسق کا بلا تشبیہ و تمثیل مرکزی دفتر اور صدر مقام ہے اس طرح اس جگہ پہنچ کر گویا مجھ پر کائنات سے متعلق نظام قدرت کے رموز کا انکشاف ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ ﷺ سے پہلے کسی اور کو پہنچنا نصیب نہیں ہوا۔ رہی یہ بات کہ وہ قلم کیسے تھے اور ان کی شکل و صورت کیا تھی؟ تو اس کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کسی کو معلوم نہیں، اس بارے میں تحقیق و جستجو بیکار ہے، ویسے قلم کی حقیقت کے بارے میں اتنا بتادینا ضروری ہے کہ وہ اس چیز کا نام ہے جس سے نقوش وحرف پیدا ہوں اور اس کی حقیقت و حیثیت کچھ بھی ہوسکتی ہے، کسی دھات کا ہولڈر یا نب اور یا سر کنڈا، قلم کی حقیقت میں داخل نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں قلم کی وضاحت میں تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے اور اس کے ظاہری معنی مراد نہیں لئے ہیں، لیکن یہ غیر مناسب بات ہے، خالص اعتقادی نقطہ نظر سے تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قلم کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا جانا چاہئے اور وجود قلم کا عقیدہ رکھنا چاہئے اور یہ کہ اس قلم کی حقیقت و کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔ میرا قول تبدیل نہیں ہوتا۔ ان الفاظ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ میں نے اجر وثواب کے اعتبار سے نمازوں کو پچاس نمازوں کے برابر کردیا ہے۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور دوسرے یہ کہ تمہارے بار بار کہنے پر میں نے پچاس نمازوں کی جگہ پانچ نمازیں کردیں ہیں اور اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ٫٫ اب مجھ کو اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ تو پھر اس بار گاہ میں حاضر ہونا اور مزید تخفیف کی درخواست کرنا حیاء کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس بات سے بھی آپ ﷺ کو شرم محسوس ہوئی کہ اب تک اتنی مرتبہ تخفیف کی درخواست لے کر جا چکا ہوں اور ہر مرتبہ رخصتی اسلام کرکے واپس آجاتا ہوں اور پھر درخواست لے کر پہنچ جاتا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ کہ اب میں تخفیف کی درخواست لے کر نہیں جاؤں گا۔ وہاں میں نے موتیوں کے گنبد دیکھے مسلم کی ایک اور روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ میں جنت کی سیر کررہا تھا کہ اچان کہ ایک نہر دیکھی جس کے دونوں کناروں پر ( بڑے بڑے) مجوف موتیوں کے گنبد تھے۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جنت کی مٹی مشک تھی۔ یعنی جنت کی مٹی سے ایسی خوشبو پھوٹ رہی تھی جیسے مشک مہک رہا ہو یا یہ کہ جنت کی جو مٹی ہے وہ دراصل مشک ہے اور اس کی خوشبو اتنی زیادہ ہے کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے جنت کی خوشبو کی لپٹ پانچ سو سال کی مسافت کی دوری تک پہنچتی ہے۔
Top