مشکوٰۃ المصابیح - معراج کا بیان - حدیث نمبر 5787
وعن ثابت البناني عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أتيت بالبراق وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يقع حافره عند منتهى طرفه فركبته حتى أتيت بيت المقدس فربطته بالحلقة التي تربط بها الأنبياء . قال : ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين ثم خرجت فجاءني جبريل بإناء من خمر وإناء من لبن فاخترت اللبن فقال جبريل : اخترت الفطرة ثم عرج بنا إلى السماء . وساق مثل معناه قال : فإذا أنا بآدم فرحب بي ودعا لي بخير . وقال في السماء الثالثة : فإذا أنا بيوسف إذا أعطي شطر الحسن فرحب بي ودعا لي بخير . ولم يذكر بكاء موسى وقال في السماء السابعة : فإذا أنا بإبراهيم مسندا ظهره إلى البيت المعمور وإذا هو يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه ثم ذهب بي إلى سدرة المنتهى فإذا ورقها كآذان الفيلة وإذا ثمارها كالقلال فلما غشيها من أمر الله ما غشي تغيرت فما أحد من خلق الله يستطيع أن ينعتها من حسنها وأوحى إلي ما أوحى ففرض علي خمسين صلاة كل يوم وليلة فنزلت إلى موسى فقال : ما فرض ربك على أمتك ؟ قلت : خمسين صلاة كل يوم وليلة . قال : ارجع إلى ربك فسله التخفيف فإن أمتك لا تطيق ذلك فإني بلوت بني إسرائيل وخبرتهم . قال : فرجعت إلى ربي فقلت : يا رب خفف على أمتي فحط عني خمسا فرجعت إلى موسى فقلت : حط عني خمسا . قال : إن أمتك لا تطيق ذلك فارجع إلى ربك فسله التخفيف . قال : فلم أزل أرجع بين ربي وبين موسى حتى قال : يا محمد إنهن خمس صلوات كل يوم وليلة لكل صلاة عشر فذلك خمسون صلاة من هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة فإن عملها كتبت له عشرا ومن هم بسيئة فلم يعملها لم تكتب له شيئا فإن عملها كتبت له سيئة واحدة . قال : فنزلت حتى أنتهيت إلى موسى فأخبرته فقال : ارجع إلى ربك فسله التخفيف فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : فقلت : قد رجعت إلى ربي حتى استحييت منه . رواه مسلم
اسراء اور معراج کا ذکر
اور حضرت ثابت بنانی (رح) ( تابعی) حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے براق لایا گیا جو ایک سفید رنگ کا، دراز بینی، میانہ قد، چوپایہ تھا، گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا اور میں نے اس براق کو ( مسجد کے دروازہ پر) اس حلقہ سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرام ( اپنے براقوں کو یا اس براق کو) باندھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آیا اور جبرائیل (علیہ السلام) میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے، میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا آپ ﷺ نے فطرت ( یعنی دین اسلام) کو اختیار کرلیا اور پھر ہمیں آسمان کی طرف چڑھایا۔ اس کے بعد حضرت انس ؓ نے حدیث کا وہی مضمون بیان کرتے ہوئے جو سابق حدیث میں گذرا کہا کہ ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میں نے ( پہلے آسمان پر) حضرت آدم (علیہ السلام) ( ان الفاظ میں) مرحبا کہا ( کہ میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں) اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ پھر آپ ﷺ نے تیسرے آسمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جن کو آدھا حسن عطا کیا گیا تھا، انہوں نے بھی مجھ کو مرحبا کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ راوی یعنی ثابت بنانی نے ( حضرت انس ؓ سے اس روایت میں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رونے کا ذکر نہیں کیا ( جیسا کہ حدیث سابق میں تھا) اور آنحضرت ﷺ نے ساتویں آسمان کو ذکر کرتے ہوئے اور بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (طواف کے لئے) داخل ہوتے ہیں جن کو دوبارہ داخل ہونا نصیب نہیں ہوتا ( یعنی ہر دن نئے ستر ہزار فرشتے طواف کے لئے آتے ہیں کیونکہ فرشتوں کی کثرت کی بناء پر کسی فرشتہ کو ایک مرتبہ کے بعد پھر دوبارہ بیت المعمور میں داخل ہونے کا کبھی موقع نہیں ملتا) اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہی کی طرف لے جایا گیا ( جو ساتویں آسمان بری کا درخت ہے) میں نے دیکھا کہ اس ( سدرۃ المنتہی) کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر اور اس کے پھل ( یعنی بیر) مٹکوں کے برابر تھے، پھر جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکے والی چیز نے ڈھک دیا تو اس کی حالت بدل گئی ( یعنی اس میں پہلے سے زیادہ اعلی تبدیلی آگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی خوبی اور وصف ( کے کمال) کو بیان نہیں کرسکتا، پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی چاہی میری طرف بھیجی ( یعنی مجھ سے بلا واسطہ کلام فرمایا) پھر مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں اس مقام سے نیچے اترا اور ( ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہوتا ہوا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چھٹے آسمان پر آیا، انہوں نے پوچھا تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا رات دن میں پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ اور ( نمازوں کی تعداد میں) تخفیف کی درخواست کرو کیونکہ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی، میں بنی اسرائیل کو آماز کر اور ان کا امتحان لے کر پہلے دیکھ چکا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ پر) میں بارگاہ الٰہی میں پھر حاضر ہوا اور کہا میرے پروردگار! میری امت کے حق میں آسانی فرمادیجئے۔ چنانچھ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں ( آسانی فرما کر) پانچ نمازیں کم کردیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میری درخواست پر پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا! تمہاری امت اتنی ( نمازیں ادا کرنے کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، تم پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور مزید تخفیف کی درخواست کرو! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اسی طرح اپنے پروردگار اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان آتا جاتا رہا ( اور تخفیف کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ میری درخواست پر ہر مرتبہ پانچ نمازیں کم کردی جاتیں)! رات دن میں فرض تو یہ پانچ نمازیں ہیں لیکن ان میں سے ہر نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے، اس طرح یہ پانچ نمازیں ثواب میں پچاس نمازوں کے برابر ہیں اور ہمارا اصول یہ ہے کہ) جس شخص نے نیکی کا قصد کیا اور اس کو ( کسی شرعی عذر یا کسی دوسری رکاوٹ کے سبب) پورا نہ کرسکا تو اس کے حساب میں ( صرف اس قصد ہی کی وجہ سے) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر اس قصد کے بعد اس نے اس نیکی کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہ نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے۔ اور جس شخص نے برے کام کا قصد و ارادہ کیا اور پھر اس برے کام کو نہ کرسکا تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر اس نے اپنے قصد کے مطابق اس برے کام کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا! پھر بارگاہ الٰہی سے نیچے ( چھٹے آسمان پر) واپس آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو صورت حال بتائی، انہوں نے پھر مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں بار بار اپنے پروردگار کے پاس جا چکا ہوں اب مجھ کو اس کے پاس جاتے شرم آتی ہے۔ (مسلم )

تشریح
پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا کے تحت ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ اسراء یعنی مسجد اقصی تک کے سفر پر سب علماء کا اتفاق ہے اور کسی نے اس کی واقعیت سے اختلاف نہیں کیا ہے، البتہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک کے سفر یعنی واقعہ معراج میں بعض لوگوں جیسے معتزلہ نے اختلاف کیا ہے اور ان کا یہ اختلاف بھی علمائے قدیم کے اس نظریہ کو ماننے کی وجہ سے ہے کہ آسمان میں خرق والتیام محال ہے۔ اور دو رکعت نماز پڑھی یہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں تھی جو آپ ﷺ نے مسجد اقصی میں داخل ہونے کے بعد پڑھیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ اس نماز کا ذکر ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے امامت فرمائی اور دوسرے انبیاء نے جن کو آنحضرت ﷺ کے اعزاز میں بیت المقدس میں جمع کیا گیا تھا، آپ ﷺ کی اقتداء کی تھی، پس راوی نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کی امامت کا ذکر یا تو اختصار کے پیش نظر نہیں کیا یا وہ اس جز کو ذکر کرنا بھول گئے جیسا کہ سابق حدیث میں آنحضرت ﷺ کے مسجد اقصی میں جانے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبرائیل۔ میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے ہوسکتا ہے کہ راوی نے یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف دو پیالوں کا ذکر کیا اور تیسرے پیالے یعنی شہد کے پیالہ کے ذکر کی ضرورت نہ سمجھی اور جیسا کہ پیچھے بیان ہوا یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد اقصی میں تو آپ ﷺ کے سامنے دو پیالے یعنی ایک شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے گئے تھے، البتہ آسمان پر تین پیالے پیش کئے گئے جن میں ایک پیالہ شہد کا بھی تھا۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف چڑھایا یہ ثم عرج بنا الی السماء کا لفظی ترجمہ ہے، اس جملہ میں لفظ عرج اور ر کے زبر سے ہے جیسا کہ نووی اور سیوطی نے لکھا ہے، اس صورت میں عرج کا فاعل یا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو کہا جائے گا یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے چونکہ آگے بنا کے لفظ ارشاد فرمایا ہے اس لئے عرج کا فاعل اللہ تعالیٰ ہوا، مطلب یہ کہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اور جبرائیل (علیہ السلام) کو اوپر آسمان تک پہنچایا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنا کا لفظ محض اظہار تعظیم کے لئے ہو، تو پھر عرج کا فاعل حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہی ٹھہریں گے۔ نیز ایک نسخہ میں عرج کا لفظ بصیغہ مجہول نقل ہوا ہے، اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا! پھر ہمیں اور پر آسمان تک لے جایا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جن کو آدھا حسن عطا کیا گیا تھا۔ آدھے حسن سے کیا مراد ہے، اس سلسلہ میں زیادہ صحیح اور تحقیقی قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے گویا یہ ظاہر فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں جتنا حسن و جمال تمام لوگوں میں تھا اس کا آدھا حصہ تنہا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملا تھا اور بعض حضرات نے اس جملہ سے آنحضرت ﷺ کی یہ مراد بیان کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو میرے حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا تھا۔ یعنی آنحضرت ﷺ کو جو حسن و جمال عطا کیا گیا تھا اس کا آدھا حصہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملا تھا۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال میں ہمارے حضرت ﷺ سے بڑھ کر نہیں تھے بلکہ متعدد صاحب تحقیق اور قاتل اعتماد علماء نے لکھا ہم کہ آنحضرت ﷺ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے زیادہ حسن و جمال کے مالک تھے اور اس کی ایک دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارمے میں یہ کہیں نہیں آیا ہے کہ ان ( حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صورت کے جمال کا عکس مثل آیئنہ کے دیوار پر پڑتا ہوا اور سامنے کی چیزیں اس میں نظر آتی ہوں جب کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ نقل ہوا ہے کہ آپ ﷺ کے روئے انور کا جمال اسی درجہ کا تھا، یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اس روشن جمال کے بہت کچھ حصہ جلوہ ریز رہا کرتا تو نہ کسی کو تاب نظارہ ہوتی اور نہ کسی کو روئے انور کے دیدار کی سعادت حاصل ہوسکتی تھی، جب کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جو کچھ حسن و جمال تھا سب کی نظروں کے سامنے تھا، اس میں کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رکھا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے دوسری بات لکھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شان میں اور ان کے حسن و جمال کی تعریف میں جو باتیں منقول اور ثابت ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ذہن میں یہ بات ڈالتی ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال بےمثال تھا، جیسا کہ اسی واقعہ معراج سے متعلق ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا! اس شب میں ایک ایسے شخص ( یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی دیکھنا اور ان سے ملنا ہوا جو قدرت کی سب سے حسین تخلیق تھا اور جو اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ حسن و جمال سے نوازا گیا تھا۔ جس طرح تمام ستاروں میں چاند سب سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ حدیث بھی ہے جو ترمذی نے حضرت انس ؓ سے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی اور رسول مبعوث نہیں کیا جو خوبرو اور خوش آواز نہ ہوا اور سب سے زیادہ خوش آواز تمہارے پیغمبر ﷺ تھے۔ جہاں تک شب معراج سے متعلق اس حدیث کا تعلق ہے جس کو شیخ عبد الحق دہلوی نے پیش کیا ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو الگ کر کے یہ بات فرمائی تھی، یعنی آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ذات رسالت مآب ﷺ کو چھوڑ کر باقی تمام مخلوق اللہ میں سب سے زیادہ حسین و جمیل حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے اور اس تاویل کی گنجائش یوں بھی موجود ہے کہ کلام کرنے والا عموم خطاب میں داخل نہیں ہوتا! حضرت شیخ ابن حجر مکی نے شرح شمائل ترمذی میں لکھا ہے آنحضرت ﷺ پر کامل ایمان میں سے ایک جزء یہ اعتقاد رکھنا بھی ہے کہ جتنا حسن و جمال آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس اور ظاہری شکل و صورت کو عطا ہوا اتنا حسن و جمال کسی بھی انسان کی ذات کو اور ظاہری شکل و صورت کو نہیں دیا گیا، جیسا کہ جتنا فضل و کمال آنحضرت ﷺ کے باطن میں رکھا گیا اتنا فضل و کمال کسی اور انسان کے باطن کو نصیب نہیں ہوا اور چونکہ کسی بھی انسان کا ظاہر، اس کے باطن کا غماز اور مظہر ہوا کرتا ہے اس لئے جس طرح آپ ﷺ کا باطن بےمثال اسی طرح آپ ﷺ کا ظاہر بھی بےمثال! نیز آنحضرت ﷺ کے ظاہری و باطنی حسن و جمال کی مدح و تعریف میں بس یہی بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ مرتبہ الوہیت کے علاوہ فضل و کمال کے اور جتنے بھی مرتبے اور درجے ہوسکتے ہیں وہ سب آنحضرت ﷺ کے لئے ثابت ہیں اور آپ ﷺ سے بڑھ کر ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے برابر بھی کوئی کامل انسان نہ آج تک پیدا ہوا اور نہ آئندہ کبھی پیدا ہوسکتا ہے۔ کسے بحسن وملاحت بیار ما نرسد تراد ریں سخن انکار کار ما نرسد ہزار نقد بازار کائنات آرند یکے بس کہ صاحب عیار مانرسد اور اسی حقیقت کود وسرے انداز میں ایک اور شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ یا صاحب الجمال ویاسید البشر من وجھک المنیر لقد نور القمر لایمکن الثناء کما کان حقہ بعد از اللہ بزرگ توئی قصہ مختصر سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیز نے ڈھک دیا اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ کس چیز نے سدرۃ المنتہی کو ڈھک دیا تھا؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جو بیشمار فرشتے سدرۃ المنتہی کو گھیرے ہوئے تھے ان کے پروں کی روشنی اور چمک نے گویا پورے درخت پر نور و جمال کی چادریں ڈال دی تھیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے جلال و عظمت کا نور سونے کے پروانوں کی طرح اس پر گررہا تھا جس کے نیچے پورا درخت چھپ سا گیا تھا۔ بعض حضرات نے یوں کہا ہے سونے کے پتنگے وپروانے اور دوسری رنگ برنگ کی عجیب و غریب چیزوں نے جن کی حقیقت و کیفیت کوئی نہیں جانتا سدرۃ المنتہی کو ڈھک دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی چاہی میری طرف بھیجی یہ وہ موقع تھا جب آنحضرت ﷺ بارگاہ بےنیاز کے حریم قرب میں پہنچے اور نور السموات والارض کے جمال بےمثال کو حجاب کبریائی سے دیکھا اور بلا واسطہ کلام الٰہی اور براہ راست وحی ایزدی سے مشرف و سرفراز ہوئے۔ وہ کلام کیا تھا اور وہ وحی کن الفاظ میں تھی؟ یہ ایک رمز ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ادب و احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو مبہم ومجمل ہی رکھا جائے اور اس کی وضاحت و تشریح کی کوشش نہ کی جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں پانچ نمازیں کم کردیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچاس نمازوں میں جو تخفیف ہوئی وہ ہر مرتبہ پانچ پانچ کم ہونے میں ہوئی جب کہ سابق حدیث میں ہر مرتبہ دس دس اور آخر میں پانچ نمازیں کم ہونے کی صورت ذکر کی گئی ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہاں اصل عبارت اس طرح ہو کھ۔۔۔ میری امت کے حق میں پانچ اور پھر پانچ نمازیں کم کردیں۔ گویا ہر دفعہ پانچ پانچ کر کے دس نمازیں کم کی گئی ہوں گی اور اس طرح اس حدیث کی سابق حدیث سے مطابقت ہوجائے کی۔ لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہر مرتبہ پانچ پانچ نمازوں ہی کی تخفیف ہوتی رہی اور سابق حدیث میں طوالت سے پچھنے کے لئے ہر مرتبہ پانچ پانچ کا ذکر کرنے کے بجائے دس دس کا ذکر کر کے کلام کو مختصر کردیا گیا، اس کی تائید اسی حدیث کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) پھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میری درخواست پر پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں۔ تو اس کے حساب میں وہ نیکی دس گنی لکھی جاتی ہے۔ ع یعنی نیکی تو وہ ایک ہی کرے گا مگر اس کے نامہ اعمال میں ثواب دس نیکیوں کا لکھا جائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی بشارت یوں دی ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ جو کوئی ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو ایسی دس نیکیاں ملیں گی اور غیر حرم میں تضاعف کا یہ سب سے ادنیٰ درجہ ہے یعنی حرم شریف کے علاوہ دوسری جگہوں پر کئے جانے والے کسی ایک نیک عمل پر جو کئی کئی گناہ زیادہ ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اس میں دس گنا سب سے ادنیٰ درجہ ہے، چناچہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے بعض صورتوں میں ایک عمل پر دس گنا سے بھی زائد یہاں تک کہ سات سو گنا ثواب ملتا ہے، بلکہ صدق و اخلاص کی حیثیت و کیفیت کے بقدر سات سو گنا سے بھی زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔ اور پھر اس برے کام کو نہ کرسکا تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جائے گی۔ یعنی اگر کسی شخص نے کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اس کی وجہ کے بغیر یا کسی ایسے سبب سے کہ جو مباح میں سے ہو، اس نے وہ برا کام نہیں کیا تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی برائی نہیں لکھی جائے گی بشرطیکہ وہ ارادہ محض سطحی طور پر پیدا ہوا ہو، دل میں مضبوطی اور پختگی کے ساتھ نہ رہا ہو۔ اور اگر اس نے برے کام کا ایسا ارادہ کیا تھا جو دل میں مضبوطی و پختگی کے ساتھ تھا اور پھر اس نے وہ برا کام نہیں کیا تو دیکھا جائے گا کہ اس نے پختہ ارادہ کے باوجود برا کام کس سبب سے نہیں کیا؟ اگر یہ سبب۔ کہ اس ارادہ کے بعد اس کے دل پر اللہ کا خوف غالب آگیا اور اس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس برے کام سے اجتناب کیا تو اس صورت میں اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھ دی جائے گی۔ تو اس کے حساب میں صرف وہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک نیکی کرنے پر نامہ اعمال میں وہ نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے اس طرح ایک برائی کرنے پر نامہ اعمال میں وہ برائی دس گنا نہیں لکھی جاتی۔ بلکہ ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے کیونکہ کمیت کے اعتبار سے برائی مضاعف نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلہا وہم لا یظلمون اور جو کوئی برائی لے کر آئے اسے ویسی ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نیز اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا سے واضح ہوا کہ برائی کا مضاعف نہ ہونا عدل الٰہی کا اظہار ہے جب کہ نیکی کا مضاعف ہونا فضل الٰہی ہے۔
Top