دین کی راہ میں سخت سے سخت اذیت سہنا ہی اہل ایمان کا شیوہ ہے
اور حضرت خباب ابن ارت کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نے نبی کریم ﷺ سے اس وقت جب کہ آپ ﷺ کعبہ اقدس کے سائے میں سر کے نیچے کملی رکھے ہوئے لیٹے تھے (کفار کی سخت ترین مخالفت اور دشمنی کی) شکایت کی کہ ان سے ہم لوگوں کو بہت اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے اور عرض کیا کہ (جب وہ لوگ ایذاء رسانی سے باز نہیں آتے تو) آپ ﷺ ان کے حق میں بد دعا کیوں نہیں فرماتے (ہماری یہ بات سنتے ہی) آپ ﷺ اٹھ بیٹھے اور چہرہ مبارک سرخ ہوگیا فرمایا تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان میں ایک وہ شخص تھا جس کے لئے زمین میں ایک گڑھا کھودا جاتا تھا پھر اس شخص کو اس گڑھے میں بٹھایا یا کھڑا کیا جاتا تھا اور پھر آرہ لا کر اس کے سر پر رکھا جاتا تھا اور اس آرہ سے اس کو چیز کر اس کے دو ٹکڑے کردیئے جاتے تھے لیکن یہ سخت عذاب بھی اس کو دین سے پھرنے نہیں دیتا تھا اور ایک وہ شخص تھا جس کے جسم پر لوہے کی (تیز) کنگھی چلائی جاتی تھی جو گوشت کے نیچے ہڈیوں اور پٹھوں تک کو چیرتی چلی جاتی تھی لیکن یہ سخت ترین عذاب بھی اس کو دین سے پھرنے نہیں دیتا تھا، اللہ کی قسم یہ دین یقینا درجہ کمال کو پہنچے گا اور تم مصیبتوں اور پریشانیوں کے ختم ہوجانے والے اس دور کے بعد آسانیوں اور اطمینان کا وہ زمانہ بھی دیکھو گے کہ) ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرے گا، یا یہ کہ کسی شخص کو اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیوں سے بھی کوئی خوف و خطرہ نہیں ہوگا، لیکن تم جلدی کرتے ہو، (بخاری)
تشریح
چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ یہ دراصل اس کرب اور اس اندورنی کیفیت کا اظہار تھا جو صحابہ کی زبان سے کافروں اور دین کے دشمنوں کے ظلم وستم اور ان کی ایذاء رسانیوں کو سن کر آپ ﷺ پر طاری ہوئی! یا یہ کہ آپ ﷺ کو چونکہ یہ پسند نہیں تھا کہ کافروں کے ظلم و ستم پر آپ ﷺ کے صحابہ بےصبری کا اظہار کریں اور زبان پر حرف شکایت لائیں اس لئے جب ان صحابہ نے کفار کی مخالف و دشمنی اور ایذا رسانی کی شکایت کی تو ناگواری اور غصہ کی وجہ سے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپ ﷺ نے آگے جو فرمایا اس کو دیکھتے ہوئے یہی مطلب زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ صنعاء دمشق (شام) کے نواح میں ایک گاؤں کا نام تھا جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے اور اصل میں جزیرہ نما عرب کے مشہور ملک یمن کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ پانی کی فراواینی اور درختوں کی کثرت کی وجہ سے یمن کی سرسبزی وشادابی اور زرخیزی بہت مشہور ہے۔ حضرموت بھی پہلے یمن ہی کا ایک حصہ تھا اور ایک جگہ کا نام تھا لیکن اب عدن کے مشرقی سمت کے ایک بڑے علاقہ پر مشتمل بہت سے شہروں اور آبادیوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک زمانہ میں یہاں صلحاء اور اہل اللہ کی قدر کثرت رہا کرتی تھی اور اس سر زمین پر اتنے اولیاء اللہ پیدا ہوتے تھے کہ یہ مقولہ ہی ہوگیا تھا حضرموت منبت الالیاء یعنی حضرموت وہ جگہ ہے جہاں اولیاء اللہ اگتے ہیں۔ اس جگہ کا نام حضرموت اس وجہ سے مشہور ہے کہ جلیل القدر پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کا انتقال یہیں ہوا تھا اور وفات کے وقت انہوں یہ جملہ فرمایا تھا، حضرالموت (موت حاضر ہوگئی) اسی وقت سے اس جگہ کا نام ہی حضرموت پڑگیا۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ایک اور پیغمبر حضرت جرجیس (علیہ السلام) کی موت اسی جگہ آئی تھی اور اس وقت سے اس کو حضرموت کہا جانے لگا۔ کسی شخص کو اپنی بکریوں کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کے اصل معنی مراد نہیں ہیں، یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعہ بھیڑئیے بکریوں پر حملہ کرنا اور ان کو درندگی کا نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے کیونکہ عادتاً ایسا ممکن ہی نہیں ہے، اگرچہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب اس دنیا میں نازل نہیں ہوں گے اور عام دردبست ان کے ہاتھ میں ہوگا تو اس وقت اتنا برکت امن وامان قائم ہوگا کہ بھیڑئیے بھی بکریوں پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے، بلکہ اس جملہ کا اصل مقصد انسانوں کے باہمی اعتبار و اعتماد اور امن وامان کو شدت کے ساتھ ظاہر کرنا ہے کہ اس وقت لوگ ایک دوسرے کے ظلم و ستم اور زور زبردستی سے بالکل محفوظ و مامون ہوں گے اور پورا معاشرہ اس طرح کے امن و عافیت سے بھر پور ہوگا جس کا تصور بھی زمانہ جاہلیت میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن تم جلدی کرتے ہو،۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا صحابہ کو تسلی دی کہ تمہیں گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار نہ ہونا چاہے اور نہ اس بات کی توقع رکھنی جائیے کہ جس عظیم مقصد کی راہ میں تم لگے ہوئے ہو اس کو بغیر اذیت و پریشانی اٹھائے اور بہت جلد سر کرلو گے۔ اس راہ میں بڑی رکاوٹیں بھی ہیں اور شدید ترین مصائب بھی، جہاں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے سخت ترین جدوجہد کرنا پڑے گی وہیں ان مصائب پر و استقامت کا دامن بھی تھامے رکھنا ہوگا، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا عناد آمیز رویہ اور اذیت ناک برتاؤ جلد ختم ہوجائے گا اور آخر الامر اللہ کے دین کا بول بالا ہوگا لہٰذا تم دین کی راہ میں تمام مصائب پر صبر کرو جیسا کہ گزشتہ امتوں کے اہل حق اور اہل ایمان لوگوں نے ان مصائب اور اذیتوں پر اپنے یقین و ایمان کی قوت کے سہارے صبر کیا جو تمہیں پیش آنے والے مصائب اور اذیتوں سے کہیں زیادہ درد ناک اور سخت ترین تھیں۔