مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5772
عن يحيى بن أبي كثير قال : سألت أبا سلمة بن عبد الرحمن عن أول ما نزل من القرآن ؟ قال : [ يا أيها المدثر ] قلت : يقولون : [ إقرأ باسم ربك ] قال أبو سلمة : سألت جابرا عن ذلك . وقلت له مثل الذي قلت لي . فقال لي جابر : لا أحدثك إلا بما حدثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : جاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري هبطت فنوديت فنظرت عن يميني فلم أر شيئا ونظرت عن شمالي فلم أر شيئا ونظرت عن خلفي فلم أر شيئا فرفعت رأسي فرأيت شيئا فأتيت خديجة فقلت : دثروني فدثروني وصبوا علي ماء باردا فنزلت : [ يا أيها المدثر . قم فأنذر وربك فكبر . وثيابك فطهر . والرجز فاهجر ] وذلك قبل أن تفرض الصلاة . متفق عليه
رسول اللہ کے ہاتھ سے مارا جانے والا اللہ کے سب سے سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔
حضرت یحییٰ ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ ابن عبدالرحمن ابن عوف (رح) سے (جواونچے درجہ کے تابعین، مشاہیر علماء اور فقہاء سبعہ میں سے ہیں) پوچھا کہ قرآن مجید کا کونسا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایا ایہا المدثر۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ (یعنی اکثر علماء) تو یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اقرأباسم ربک نازل ہوئی ہے حضرت ابوسلمہ نے فرمایا میں نے حضرت جابر ؓ سے یہی سوال کیا تھا (کہ کونسا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا ہے؟ تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا ہے) پھر میں نے یہی کہا جو تم نے مجھ سے کہا ہے (کہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (اقرأباسم ربک الذی اتری ہے) تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے ارشاد فرمائی تھی، آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے ایک مہینہ تک غار حراء میں خلوت گزین۔ اور معتکف تھا، جب میری خلوت گزینی اور اعتکاف کی مدت پوری ہوئی اور میں پہاڑ سے اترا تو (اچانک میرے کانوں میں آواز آئی کہ) کوئی مجھے مخاطب کررہا ہے، میں نے دائیں طرف (مڑ کر) دیکھا لیکن مجھے کوئی چیز بھی نظر نہیں آئی بائیں طرف دیکھا تو ادھر بھی کوئی چیز نظر نہیں آئی، پیچھے کی طرف نظر کی تو ادھر بھی کوئی نظر دکھائی نہیں دیا، پھر جب میں نے اوپر نظر اٹھائی تو مجھے کچھ نظر آیا یعنی ایک فرشتہ دکھائی دیا، میں (اس کو دیکھ کر سہم گیا اور مارے خوف کے کانپتا ہوا) خدیجہ ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اڑھاؤ مجھے کپڑا اڑھاؤ۔ خدیجہ ؓ نے (فورًا) مجھ کو ایک کپڑا اڑھا دیا اور (میرے حو اس بحال کرنے کے لئے) مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔ ) 74۔ المدثر 1 تا 5) (یعنی اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑے ہو اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو اور اپنے کپڑے کو پاک رکھو اور ناپاکی سے اجتناب کرو) اور نزول وحی کا یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت حدیث کے وقت نسیان کے سبب راوی کے ذہن میں مسئلہ کی اصل نوعیت پوری طرح محفوظ نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے یہ حدیث اس طرح بیان کی کہ گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سب سے پہلی وحی یا ایہا المدثر الخ ہے حالانکہ حقیقت میں سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی ہے وہ اقرا باسم ربک الخ ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اقرا باسم ربک کے بعد وحی کا نزول کچھ عرصہ کے لئے منقطع ہوگیا اور یہ سلسلہ پھر دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے پہلے جو وحی اتری وہ یا ایہا المدثر الخ ہے، جیسا کہ اس کا تفصیلی ذکر پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں گذرا پس یا ایہا المدثر الخ کی اولیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی، چناچہ خود حضرت جابر ؓ کی جو روایت پہلے گذری ہے اس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انقطاع وحی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں چلا جارہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس کوہ حراء میں آیا۔۔۔۔۔۔ الخ۔ اس سے بھی صریحی طور پر یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں اس حدیث میں حضرت جابر ؓ نے اضافی اولیت مراد لی ہے۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کے راوی نے اختصار سے کام لیا ہے اور سب سے پہلے اترنے والی وحی اقراء باسم ربک کے ذکر کو حذف کرکے اس وحی کو ذکر کیا جو انقطاع کے بعد سلسلہ وحی دوبارہ شروع ہونے پر سب سے پہلے اتری تھی۔
Top