مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5770
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كسرت رباعيته يوم أحد وشج رأسه فجعل يسلت الدم عنه ويقول : كيف يفلح قوم شجوا رأس نبيهم وكسروا رباعيته . رواه مسلم
غزوئہ احد میں آنحضرت ﷺ کے زخمی ہونے کا ذکر :
اور حضرت انس ؓ روایت ہے کہ احد کی لڑائی کے دن رسول کریم ﷺ کے ان چار دانتوں میں سے ایک دانت توڑ دیا گیا تھا جن کو رباعیہ کہتے ہیں اور آپ ﷺ کا سر مبارک زخمی کردیا گیا، آپ خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ وہ قوم کیونکر فلاح یاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کیا اور اس کے دانت توڑ دئیے۔ (مسلم)

تشریح
رباعیہ عربی میں دواوپر کے اور نیچے کے ان چار دانتوں کو کہتے ہیں جو ثنایا اور انیاب کے درمیان ہوتے ہیں چناچہ آپ ﷺ کے نیچے کے ان دو دانتوں میں سے داہنی طرف کا ایک دانت ٹوٹا تھا اس کے ساتھ نیچے کا لب مبارک بھی زخمی ہوگیا تھا، واضح رہے کہ دانت ٹوٹنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دانت جڑ سے اکھڑ گیا تھا بلکہ اس کا ایک حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا نیز جس شخص نے آپ ﷺ پر حملہ کر کے یہ دانت توڑا تھا اس کا نام عقبہ بن ابی وقاص اور مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھائی تھا۔ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعد میں عقبہ ابن ابی وقاص مسلمان ہوگیا تھا اور صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا تھا یا نہیں، نیز منقول ہے کہ اس شخص کی نسل میں پیدا ہونے والا ہر شخص جب بالغ ہوجاتا تھا تو اس کا آگے کا دانت خود بخود گرپڑتا تھا اس روایت میں سر مبارک کے زخمی ہونے کا ذکر ہے جب کہ بعض روایتوں میں پیشانی کا زخمی ہونا ذکر کیا گیا تھا، نیزیہ بھی منقول ہے کہ جو نہی آنحضرت ﷺ کو زخم پہنچا پہاڑ کے اوپر سے ایک چٹان نیچے آکر اس شخص پر گری جس نے حملہ کرکے آنحضرت ﷺ کو زخمی کیا تھا اور وہیں ریزہ ریزہ ہوگیا۔ جنگ احد میں آنحضرت ﷺ کو اور بھی بہت سی اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، کافروں نے میدان جنگ میں جگہ جگہ گڑھے کھود کر ان کو گھاس پھوس کے ذریعہ اوپر سے پات دیا تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ اپنے گھوڑے سمیت ایسے ہی ایک گھڑے میں گرگئے یہ دیکھ کر حضرت طلحہ ابن عبیداللہ ؓ دوڑے ہوئے آئے اور آنحضرت ﷺ کو اپنی گود میں لے کر اس گڑھے سے باہر نکالا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اوجبہ طلحۃ یعنی طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کرلیا، اسی طرح آنحضرت ﷺ کے سر مبارک پر خود جو لوہے کا خود تھا اس کی دو کڑیاں آپ ﷺ کے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئی تھیں اور اس بری طرح پیوست ہوئیں کہ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ نے ان کو اپنے دانتوں میں پکڑ کر کھینچا تو ان کے دانت ٹوٹ کر الگ ہوگئے، حضرت مالک ابن سنان ؓ نے آگے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے زخم سے بہتے ہوئے خون کو چوس چوس کر صاف کرنا شروع کیا، اس وقت بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میرا بہتا ہوا خون چوس کر صاف کیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ سر مبارک کے زخم کو صاف کرنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور حضرت فاطمہ الزہراء ؓ نے نمدے کا ایک ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری جس سے خون کا بہنا موقوف ہوا۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ جب زخموں کی اذیت سے بتقاضائے بشریت آنحضرت ﷺ کے مزاج مبارک میں کچھ تغیرپیدا ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3۔ ال عمران 128) آپ ﷺ کوئی دخل نہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان پر یا تو متوجہ ہوجاویں اور یا ان کو کوئی سزا دے دیں کیونکہ انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے۔ یہ بھی منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے زخموں سے خون بہنا شروع ہوا تو آپ ﷺ خون کو زمین پر گرنے سے روکنے کے لئے صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اگر میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرگیا تو ان (کافروں) پر آسمان سے عذاب اترنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ احد کی لڑائی کے دن آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر تلوار کی ستر ضربیں پڑیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان ضربوں کے اثر سے محفوظ رکھا۔
Top