مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5769
وعن عائشة أنها قالت : هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد ؟ فقال : لقد لقيت من قومك فكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة إذ عرضت نفسي على ابن عبد يا ليل بن كلال فلم يجبني إلى ما أردت فانطلقت - وأنا مهموم - على وجهي فلم أفق إلا في قرن الثعالب فرفعت رأسي فإذا أنا بسحابة قد أظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال : إن الله قد سمع قول قومك وما ردوا عليك وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم . قال : فناداني ملك الجبال فسلم علي ثم قال : يا محمد إن الله قد سمع قول قومك وأنا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتأمرني بأمرك إن شئت أطبق عليهم الأخشبين فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده ولا يشرك به شيئا . متفق عليه
عقبہ کے سخت ترین مصائب اور آپ ﷺ کا کمال تحمل وترحم :
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ ﷺ پر گذرا ہے؟ (احد کی جنگ میں آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ مصیبتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا ذکر آگے کی حدیث میں آرہا ہے) آنحضرت ﷺ نے (حضرت عائشہ ؓ کا یہ سوال سن کر) فرمایا تمہاری اس قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اور یہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ و غمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا ( اور چلتا ہی رہا) یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حو اس قابو میں آئے، میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک (بڑا) ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور پھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرائیل (علیہ السلام) پر پڑی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کی قوم کی بات سن لی اور اس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ ﷺ کو دیا ہے (یعنی آپ ﷺ کی قوم کا آپ ﷺ کو برا بھلا کہنا آپ ﷺ کو جھٹلانا اور آپ ﷺ کو ایذاء پہنچانا سب معلوم ہے) اور اب اس (پروردگار) نے آپ ﷺ کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو (جس کے سپرد تمام روئے زمین کے کوہ وجبل کی عملداری ہے) اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ اپنی قوم (کی ہلاکت و تباہی اور ان تمام ظالموں کو پہاڑوں میں دبا دینے) کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یا نبی! یامحمد! کہہ کر) مخاطب کیا اور سلام کرکے کہا کہ اے محمد ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، مجھ کو آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیلکا حکم دیں، اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں آپ ﷺ کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں (جن کے نیچے دب کر سب کے سب نیست ونابود ہوجائیں) رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا) بلکہ میں تو یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کریں اور کسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں (یعنی نہ شرک جلی میں مبتلا ہوں اور نہ شرک خفی میں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
عقبہ اصل میں تو اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں کے درمیان گزرتا ہے، لیکن بظاہر یہاں عقبہ سے مراد وہ جگہ ہے جو منیٰ میں واقع ہم اور جس کی طرف جمرہ کی نسبت کرکے جمر ۃ العقبہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ حج کے زمانہ میں اور عام اجتماعات کی جگہ پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے ان کے سامنے اللہ کا پیغام رکھتے تھے، ان کو نیک کاموں کی تلقین و تبلیغ کرتے اور برے کاموں سے باز رکھنے کے لئے اللہ کی عذاب سے ڈراتے، چناچہ اس دن بھی یہی ہوا کہ آپ ﷺ نے عقبہ کے مقام پر جمع لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور تمام قبائل کو اللہ کا دین قبول کرلینے کی تبلیغ فرمائی، اسی ضمن میں آپ ﷺ وہاں سے چل کر قبیلہ ثقیف میں پہنچے اور اس قبیلہ کے ایک سردار ابن عبد یالیل ابن کلال کو اسلام کی دعوت دی لیکن نہ صرف یہ کہ ان لوگوں پر آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کسی نے آپ ﷺ کی بات نہیں مانی بلکہ وہاں کے جاہلوں اور ظالموں نے آپ ﷺ کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا، آپ ﷺ کو گالیاں دیں، سخت ایذائیں پہنچائیں، انتہاء یہ کہ آپ ﷺ پر بےتحاشہ پتھر برسائے جس سے آپ ﷺ خون میں شرابور ہوگئے۔ زور اغیار دیوار سنگ یاری بارد بلائے درد منداں از در و دیوار مے بارد ایک طرف تو دین حق سے ان کی بےاعتنائی، دعوت و تبلیغ کی ناکامی، دوسری طرف ان بدبختوں کا اس قدر تکلیف دہ اور جان سوز رویہ کہ پورا جسم لہولہان ہوگیا، اس سخت ترین رنج وغم اور انتہائی ہولناک اذیتوں نے آپ ﷺ پر شدید قسم کی سراسیمگی اور بدحواسی طاری کردی، نہ یہ خبر رہی کہ کدھر سے آئے تھے، نہ یہ شعور رہا کہ کہاں جانا ہے، نہ راستہ کا پتہ رہا نہ منزل کی پہچان بس جدھر منہ اٹھا چل کھڑے ہوئے، یوں ہی چلتے چلتے جب کچھ ہوش وحو اس بجا ہوئے اور دل و دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نجد کی میقات ہے اور جس کو قرن منازل کہتے ہیں، اسی جگہ ایک ابر کے ٹکڑے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نمودار ہوئے اور یہیں پہاڑوں پر مامور فرشتہ نے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اجازت طلب کی مگر یہ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت تھی کہ اس سخت ترین صورت حال سے دوچار کرنے والوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا ناگوارہ نہیں ہوا اور امید یہ قائم کی اگر ان کو ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو کیا ہوا، یقینا اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کردے گا جو کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کی آغوش میں آجائیں گے۔
Top