مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5766
وعن عبادة بن الصامت قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا نزل عليه الوحي كرب لذلك وتربد وجهه . وفي رواية : نكس رأسه ونكس أصحابه رؤوسهم فلما أتلي عنه رفع رأسه . رواه مسلم
نزول وحی کے وقت آنحضرت ﷺ کی کیفیت وحالت :
اور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو اس کے سبب آپ ﷺ کو سخت غم لاحق ہوجاتا تھا اور آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پر وحی اترتی تھی تو آپ ﷺ اپنا سرجھکا لیتے تھے اور (اس وقت جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (موجود ہوتے وہ) بھی اپنا سر جھکا لیتے تھے، جب وحی اترنا موقوف ہوجاتا تو آپ ﷺ ( اور صحابہ بھی) اپنا سر اٹھا لیتے۔ (مسلم)

تشریح
تو آپ ﷺ کو سخت غم لاحق ہوجاتا تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی شخص کو اس کی کوئی بہت ہی اہم ذمہ داری غم اور فکر میں مبتلا کردیتی ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ اس وحی کو بجنسہ یاد و محفوظ رکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری کا سخت فکر اور غم کرتے تھے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کا اہتمام آپ ﷺ کو ہلکان کردیتا تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا۔ لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ۔ (اے پیغمبر ﷺ آپ قبل اختتام وحی قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی لیں، اس (قرآن) کو آپ ﷺ کے قلب وحافظہ میں) جمع و محفوظ کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ یا یہ غم وفکر آپ ﷺ کو اس سبب سے ہوتا تھا کہ نازل ہونے والی وحی میں غیظ وغضب، سزاو عذاب کا اظہار کرنے والی آیات بھی ہوتی تھیں اور آپ ﷺ ان آیات کی بنا پر اپنی امت کے حق میں سخت فکر مند اور غمگین ہوجاتے تھے کہ کہیں میری امت کے لوگ اس غیظ وغضب اور عذاب کے مستوجب نہ ہوجائیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سر جھکا لینا تو اس بناء پر ہوتا تھا کہ اس وقت آنحضرت ﷺ پر جو کیفیت طاری ہوتی تھی، کمال تعلق و محبت کی وجہ سے ان کا اثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سرایت کرجاتا تھا، یا یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب آپ ﷺ کو سرجھکاتے دیکھتے تو آپ ﷺ کی اتباع میں وہ سر جھکا لیتے تھے۔
Top