مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5765
وعن عائشة أن الحارث بن هشام سأل رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله كيف يأتيك الوحي ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول . قالت عائشة : ولقد رأيته ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا . متفق عليه
وحی کس طرح آتی تھی :
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حارث ابن ہشام نے (جوابوجہل کے بھائی تھے اور فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے) رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس وحی کبھی تو گھنٹال کی آواز میں آتی ہے۔ ( یعنی وحی کے الفاظ جو مجھ تک پہنچائے جاتے ہیں گھنٹال کی آواز کی طرح صوتی آہنگ رکھتے ہیں) اور یہ وحی مجھ پر سخت ترین وحی ہوتی ہے، چناچہ فرشتہ، وحی کے جو الفاظ مجھ تک پہنچاتا ہے میں اس کو بڑی محنت اور توجہ سے سن کریاد کرلیتا ہوں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل اختیار کرکے مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کچھ کہتا ہے میں اس کو محفوظ اور یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ (یہ بیان کرکے) کہتی ہیں! میں نے دیکھا ہے کہ جب شدید سردی کے دن ہوتے تھے اور آنحضرت ﷺ پر وحی اترتی تھی اور فرشتہ وحی پہنچا کر چلا جاتا تھا تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینہ سے شرابور نظر آتی تھی۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
اور یہ وحی مجھ پر سخت ترین وحی ہوتی ہے۔ یعنی اس وحی کے الفاظ اور مفہوم کے الفاظ ومقصد کو سمجھنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے کیونکہ ایسی بات کو سمجھنا جس کے الفاظ غیر مانوس صوتی آہنگ (مثلا گھنٹال کی آواز جیسا آہنگ) رکھتے ہوں سخت دشوار ہوتا ہے، اس کی بہ نسبت وہ بات زیادہ آسانی سے سمجھ آتی ہے جو کسی انسان سے ہم کلامی ومخاطبت اور مانوس صوتی آہنگ کی صورت میں ہو۔ فرشتہ انسان کی شکل اختیار کرکے۔۔۔۔ الخ۔ کے تحت شارحین نے یہ مشہور قول لکھا ہے کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) انسان کی شکل میں آتے تھے تو زیادہ تر ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی شکل و صورت میں آتے تھے نیز علماء نے لکھا ہے کہ استفادہ اور استفاضہ کے لئے بنیادی شرط ہے کہ بات کہنے والے اور اس بات کو سننے والے کے درمیان وہ مناسبت ہونی چاہیے جو ایک دوسرے سے وحشت زدہ نہ کرے، چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ملکیت اور روحانیت آنحضرت ﷺ پر غالب کردی جاتی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے آپ ﷺ کو بشریت سے جدا کردیا جاتا تھا، جس سے آنحضرت ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ملکوتی مناسبت حاصل ہوجاتی تھی یہ وہ صورت ہوتی تھی جس کی طرف آنحضرت ﷺ کی آنحضرت ﷺ نے نزول وحی کا پہلا طریقہ بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی بشریت کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پر غالب کردیا جاتا تھا اور وہ کچھ عرصہ کے لئے وصف بشریت کے حامل ہوجاتے تھے جس سے آنحضرت ﷺ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے درمیان بشری مناسبت پیدا ہوجاتی تھی، یہ وہ صورت ہوتی تھی جس کی طرف آنحضرت ﷺ نے نزول وحی کا دوسرا طریقہ بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ لیکن یہ ساری بحث اس وقت ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے جس چیز کو صلصلۃ الجرس (گھنٹال کی آواز) سے تعبیر فرمایا ہے وہ نفس وحی کی آواز ہوتی تھی جیسا کہ حدیث کی ظاہری عبارت سے واضح ہوتا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صلصلۃ الجرس کی طرح وہ آواز دراصل حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اپنی آواز ہوتی تھی جو وحی پہنچانے سے پہلے ان سے ظاہر ہوتی تھی اور پہلے ان کی اس آواز کے ظاہر ہونے میں کی حکمت یہ ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوجائیں اور سماعت وحی کے اصل الفاظ سننے کے لئے اس طرح تیار اور خالی ہوجائے کہ وحی کے علاوہ اور کسی آواز کے لئے اس (سماعت) میں جگہ ہی نہ رہے اور اسی لئے نزول وحی کی یہ (پہلی) صورت آپ ﷺ پر بڑی سخت ہوتی تھی کہ آپ ﷺ کی تمام تر ذہنی وفکری طاقت مجتمع ہو کر صرف وحی کی طرف متوجہ رہتی تھی۔۔۔۔۔۔ تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینہ سے شرابور نظر آتی تھی۔ بظاہر تو یہ معلومہ ہوتا ہے کہ یہ کیفیت اس صورت میں پیش آتی تھی جب نزول وحی کا پہلا طریقہ عمل میں آتا تھا، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں صورتوں میں یہ کیفیت پیش آتی ہو۔
Top