مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5764
وعن جابر أنه سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يحدث عن فترة الوحي قال : فبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه رعبا حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت : زملوني زملوني فأنزل الله تعالى : [ يا أيها المدثر . قم فأنذر وربك فكبر . وثيابك فطهر . والرجز فاهجر ] ثم حمي الوحي وتتابع . متفق عليه
انقطاع کے بعد پہلی وحی۔
اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کچھ دنوں کے لئے انقطاع وحی اور پھر سلسلہ وحی کے دوبارہ شروع ہونے کا حال اس طرح سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا (ایک دن مکہ کے کسی راستہ پر یا حراء پہاڑ) میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ایک آسمانی آواز آئی، میں نے اوپر نظر آٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حراء میں میرے پاس آیا تھا، زمین و آسمان کے درمیان ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے (اس پر نظر پڑتے ہی) میرے دل میں اتنا سخت رعب اور خوف پیدا ہوگیا کہ میں (بےساختہ) زمین پر گرپڑا، پھر میں (اٹھ کر) اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو، چناچہ گھر والوں نے مجھ کو کپڑا اڑھا دیا (اور میں اس کپڑے میں دبک کر لیٹ گیا، جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔ ) 74۔ المدثر 1 تا 5)۔ اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھو اور مخلوق کو ڈراؤ اور اپنے رب کو ہی بڑا جانو اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو اور پلیدی کو چھوڑ دو۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی یعنی مسلسل آنے لگی۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
اور مخلوق کو ڈراؤ۔ کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو عذاب الٰہی سے ڈراؤ تاکہ وہ کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کے راستہ پر لگ جائیں اور اہل ایمان کو طرح طرح کے اجر وثواب کی بشارت دو تاکہ زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرنے کی تحریک اور جذبہ ان میں پیدا ہو۔ اور اپنے رب ہی کو بڑا جانو۔ کا مطلب یہ ہے کہ بڑائی اور کبریائی کا مالک پروردگار کو جانو اور اس اعتبار سے صرف اسی کو قابل تعظیم مان کر اس کے آگے سرجھکاؤ، اس جیسا کسی اور کو نہ جانو اور جب بھی اللہ کی طرف سے کوئی بات پیش آئے تو اللہ اکبر کہو۔ منقول ہے کہ جب یہ حکم نازل ہوا تو آنحضرت ﷺ کی زبان سے بےساختہ اللہ اکبر نکلا اور حضرت خدیجہ ؓ نے بھی یہ نعرہ تکبیر بلند کیا، انہیں بےحد مسرت و طمانیت محسوس ہوئی اور ان کو یہ یقین ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو۔ یعنی اپنے لباس اور اپنے کپڑوں کو نجاست وناپا کی سے محفوظ رکھو اور پاکی وستھرائی کی طرف دھیان دو۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کپڑوں کو پاک کرنے میں کپڑوں سے مراد انسانی صفات و محاسن ہیں اور پاک کرنے سے مراد بری خصلتوں اور خراب باتوں سے اجتناب کرنا ہے۔ اور پلیدی کو چھوڑ دو۔ سے مراد شرک و گناہ سے اجتناب کرنا ہے اور اس اجتناب پر پابندی کے ساتھ قائم رہنا۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے راوی نے اقتصارواختصار کے پیش مذکورہ آیتوں کے آخری حصے کو نقل نہیں کیا ہے جو یہ ہے۔ (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۔ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۔ ) 74۔ المدثر 7-6) اور کسی کو اس غرض سے مت دو ( کہ دوسرے وقت) زیادہ چاہو اور اپنے رب (کی خوشنودی کے لئے) صبر کرو۔ تفسیر مدارک میں مذکورہ بالا روایت حضرت جابر ؓ کے الفاظ میں یوں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں (ایک دن) حراء پہاڑ پر تھا کہ کسی نے ان الفاظ میں مجھے آواز دی یا محمد انک رسول اللہ ﷺ۔ (اے محمد بلاشبہ تم اللہ کے رسول ہو) میں نے دائیں بائیں دیکھا، پھر اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ مجھے آواز دینے والا فرشتہ ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس کو دیکھ کر سہم گیا اور خدیجہ ؓ کے پاس واپس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اڑھاؤ، چناچہ خدیجہ ؓ نے مجھ کو کپڑا اڑھا دیا، جب ہی جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے یہ پڑھایا یا ایہا المدثر الخ اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو اوپر نقل ہوئے۔
Top