مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان - حدیث نمبر 5763
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه و سلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه - وهو التعبد الليالي ذوات العدد - قبل أن ينزع إلى أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال : اقرأ . فقال : ما أنا بقارئ . قال : فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ . فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : [ اقرا باسم ربك الذي خلق . خلق الإنسان من علق . اقرأ وربك الأكرم . الذي علم بالقلم . علم الإنسان ما لم يعلم ] . فرجع بها رسول الله صلى الله عليه و سلم يرجف فؤاده فدخل على خديجة فقال : زملوني زملوني فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال لخديجة وأخبرها الخبر : لقد خشيت على نفسي فقالت خديجة : كلا والله لا يخزيك الله أبدا إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق ثم انطلقت به خديجة إلى ورقة بن نوفل ابن عم خديجة . فقالت له : يا ابن عم اسمع من ابن أخيك . فقال له ورقة : يا ابن أخي ما ذا ترى ؟ فأخبره رسول الله صلى الله عليه و سلم خبر ما رأى . فقال ورقة : هذا هو الناموس الذي أنزل الله على موسى يا ليتني فيها جذعا يا ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أو مخرجي هم ؟ قال : نعم لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا . ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحي . متفق عليه وزاد البخاري : حتى حزن النبي صلى الله عليه و سلم - فيما بلغنا - حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبل فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي نفسه منه تبدى له جبريل فقال : يا محمد إنك رسول الله حقا . فيسكن لذلك جأشه وتقر نفسه
آغاز وحی کی تفصیل :
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر نزول وحی کا سلسلہ جس چیز سے شروع ہوا وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا، آپ ﷺ جو خواب دیکھتے اس کی تعبیر (کسی ابہام و اشتباہ کی آمیزش کے بغیر) اس طرح روشن ہو کر سامنے آجاتی جیسے صبح کا اجالا (ظاہر ہوجاتا) اس کے بعد جب کہ ظہور نبوت کا وقت آنے کو ہوا) آپ ﷺ کو تنہائی کا شائق بنادیا گیا۔ اور آپ ﷺ غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے، اس غار میں آپ ﷺ عبادت کیا کرتے یعنی متعدد راتیں وہیں عبادت میں اس وقت تک مشغول رہتے جب تک کہ گھر والوں (کے پاس جانے) کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا، آپ ﷺ (ان عبادت کی راتوں کے لئے گھر سے) کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے اور (جب وہ چیزیں ختم ہوجاتیں تو) پھر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آتے اور اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے (یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا) یہاں تک کہ حق (کے ظہور کا وقت) آگیا، آپ ﷺ اس وقت بھی غار حرا ہی میں تھے، آپ ﷺ کے پاس فرشتہ (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) اور ایک روایت کے مطابق اسرافیل (علیہ السلام) آیا اور کہا کہ پڑھو! آنحضرت ﷺ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں فرشتہ نے (میرا یہ جواب سن کر) مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور سے) بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا، پھر اس (فرشتہ) نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو! میں نے وہی جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں فرشتہ نے دوسری مرتبہ مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور) سے بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے اب بھی یہی کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا فرشتہ نے تیسری مرتبہ مجھ کو پکڑا اور (خوب زور سے) بھینچا یہاں تک میں پریشان ہوگیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ یعنی پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے (تمہیں اور ہر چیز) کو پیدا کیا، انسان کو (رحم مادر میں) بستہ خون سے پیدا کیا، پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے بزرگ و برتر ہے وہ پروردگار جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دین اور انسان کو ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ نہ جانتا تھا۔ اس کے بعد (فرشتہ تو غائب ہوگیا اور) آنحضرت ﷺ ان آیتوں کے ساتھ مکہ (اپنے گھر) واپس آئے اس وقت یہ حال تھا کہ (وحی کی شدت رعب سے سخت دہشت زدہ تھے اور نہ صرف) آپ ﷺ کا دل کانپ رہا تھا (بلکہ بخار اور لرزہ کی کیفیت پورے جسم پر طاری تھا) آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کے پاس پہنچ کر کہا کہ مجھے کپڑے اڑھاؤ مجھے کپڑے اڑھاؤ حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کو کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ (کچھ دیر کے بعد اس رعب وہیبت کی شدت ختم ہوئی تو) آپ ﷺ کا خوف وہراس جاتا رہا (اور اصل جسمانی حالت بحال ہوئی) تب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کو پورا واقعہ بتایا اور ان سے یہ بھی فرمایا کہ مجھ کو اپنی جان کا خوف ہے حضرت خدیجہ ؓ نے (تسلی دیتے ہوئے) کہا کہ آپ ﷺ قطعا خوف نہ کرئیے۔ آپ ﷺ جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا) اللہ کی قسم (مجھے پورا یقین ہے کہ) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رسوا اور بےمراد نہیں کرے گا کیونکہ آپ ﷺ قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے ہیں (اگرچہ وہ قرابت دار آپ ﷺ قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے (اگر چہ وہ قرابت دار آپ ﷺ سے ترک وتعلق اور بدسلوکی ہی کا معاملہ کیوں نہ کرتے ہوں) آپ ﷺ کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولتے اگرچہ لوگ آپ ﷺ سے جھوٹ بولے یا آپ ﷺ کو جھٹلائیں بعض روایتوں میں یہاں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تو دی الامانۃ یعنی آپ ﷺ امانت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے آپ ﷺ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں آپ ﷺ غریبوں مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں آپ ﷺ مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں آپ ﷺ لوگوں کی حقیقی حادثات و مصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس پہنچی اور ان سے کہا کہ اے ابن عم اپنے بھتیجے کی روداد سن لیجئے ورقہ آنحضرت ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا میرے بھتیجے تم پر کیا بیتی اور تم کیا دیکھتے اور محسوس کرتے ہو؟ رسول کریم ﷺ نے ان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا جو آپ ﷺ کے ساتھ پیش آیا تھا ورقہ نے ساری باتیں سن کر کہا کہ تم دونوں کو مبارک ہو یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجتا تھا اے کاش تمہاری نبوت کا اظہار اور تمہاری دعوت کے اعلان کے وقت میں طاقتور جوان ہوتا کاش میں اس وقت زندہ ہی رہتا چاہے میرے اندر طاقت وتوانی نہ ہوتی جب تمہاری قوم یعنی قریش میں سے تمہارے قرابت دار تمہارے شہر سے تمہیں نکال دیں گے رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر حیرت کے ساتھ پوچھا کیا واقعی میری قوم شہر سے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں مجھے یقین ہے کہ تمہاری قوم کے لوگ تمہیں شہر سے ضرور نکال دیں گے کیونکہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمہاری طرح نبوت و شریعت لے کر اس دنیا میں آیا اس کے ساتھ دشمنی کی گئی ایک روایت میں یوں ہے جب بھی کوئی پیغمبر اس دنیا میں آیا کافروں نے اس کے ساتھ دشمنی رکھی اور اس کو سخت ترین ایذائیں پہچائیں اگر میں ان ایام میں جب تم لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاؤ گے اور اس کے جواب میں تمہاری قوم کے لوگ تمہیں ایذاء پہنچائیں گے اور تمہیں تمہارے شہر سے نکالیں گے) زندہ رہا تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد و حمایت کروں گا۔ لیکن اس کے بعد ورقہ زیادہ دن نہ رہے اور جلدی ہی اس دنیا سے چلے گئے اور آنحضرت ﷺ پر وحی آنے کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ اس روایت کو یہاں تک بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن اس کے بعد بخاری نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ (نزول وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو) آنحضرت ﷺ پر غم وحزن طاری ہوگیا، جس کا ثبوت ہمیں ان حدیثوں سے بھی ملتا ہے جو ہم تک پہنچی ہیں اور یہ غم وحزن اتنا شدید اور سخت تھا کہ کئی مرتبہ آپ ﷺ صبح کو اس ارادہ سے پہاڑوں پر گئے کہ اپنے آپ کو ان اونچے پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے گرا دیں، جب بھی آپ کس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تاکہ اپنے آپ کو نیچے گرادیں تو (اچانک) جبرائیل (علیہ السلام) ظاہر ہوتے اور کہتے محمد ﷺ بلاشبہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اس صورت میں یقینًا آپ ﷺ کی ہر کلفت و پریشانی ختم ہو کر رہے گی اور انجام کار دین ودنیا کے ہر معاملہ میں آپ بامراد رہیں گے اگرچہ درمیان میں کتنے ہی مشقت وابتلاء کے مراحل سے گذرنا پڑے) چناچہ (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی یہ بشارت سن کر) آنحضرت ﷺ کے دل کا اضطراب، دہشت اور قلق جاتا رہتا اور آپ ﷺ مطمئن ہوجاتے۔

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ روایت ابتداء نزول وحی کی ساری تفصیل یا تو براہ راست آنحضرت ﷺ سے سن کر یا کسی صحابی سے نقل کرکے بیان کی ہے کیونکہ ظہور نبوت کے ابتدائی زمانہ میں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا وجود بھی نہیں تھا۔ وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا کے ضمن میں شارحین نے یہ اقوال نقل کئے ہیں کہ ظہور نبوت سے پہلے سچے خواب نظر آنے کی اس کیفیت وحالت کا عرصہ چھ ماہ رہا۔ نیز سچے خواب کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوابیدہ شخص کے دل و دماغ اور اس کے احساسات پر ان چیزوں کا عکس ڈال دیتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہیں یا پہلے ہی وقوع پذیر ہوچکی ہوتی ہیں لیکن پہلے سے اس شخص کے علم میں نہیں ہوتی اس طرح جیسے بیداری کی حالت میں میں انسانی دل و دماغ اور ادراک و احساس بھی بیدار رہتے ہیں تقریبًا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس خوابیدہ شخص کا ادراک و احساس بھی بیدار ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر وبیشتر وہ شخص خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کی بعینہ عملی اور وجودی تعبیر وہ جاگنے کے بعد دیکھ یا جان لیتا ہے یہ چیز حق تعالیٰ کے حکم وقدرت کے تحت ہے اور عملی دنیا میں ناممکن بالکل نہیں ہے، اس قادر مطلق کو ہرچیز پر قدرت حاصل ہے کہ اس کے کسی حکم وفعل کی راہ میں نہ نیند رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ آپ ﷺ غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے۔ حراء اس مشہور پہاڑ کا نام ہے جو مکہ کے نواح میں واقع ہے اس پہاڑ کو جبل ثور بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے اور شاید اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے گوشہ نشینی اور عبادت الٰہی کے لئے اس پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے بھی واقعہ فیل کے دوران اسی پہاڑ کو اپنی پناہ گاہ بنایا اور اسی جگہ دعا ومناجات میں مشغول رہے۔ حدیث کے اس جملہ کے تحت شارحین حدیث نے خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کے بارے میں بڑی مفید باتیں لکھی ہیں، مثلا خلوت گزینی اللہ کے نیک و صالح اور عارف بندوں کی مخصوص شان ہے اسی لئے ظہور نبوت سے پہلے آنحضرت ﷺ کو اس کا شائق بنایا گیا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ خلوت و تنہائی میں دل و دماغ کو مکمل سکون اور فراغت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ رہنے کا موقع خوب ملتا ہے دنیاوی علائق وتفکرات اور انسانی تقاضوں اور بشری مرغوبات سے انقطاع رہتا ہے اللہ کی یاد اور اس کی عبادت میں خشوع و خضوع، نورانیت و طمانیت اور خاطر جمعی بہت اچھی طرح میسر آتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر حالت میں اور ہر موقع پر خلوت گزینی اور گوشہ نشینی ہی سب سے اچھی چیز اور شریعت کی نظر میں زیادہ مطلوب و پسندیدہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلوت وعزلت کی طرح جلوت اور اختلاط کی بھی اہمیت ہے اور ان دونوں میں سے کون سی صورت افضل ہے، اس کا مدار پیش آمدہ حالات و معاملات کے حسن وقبح پر ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک صورت ان شرائط و ضروریات کے تحت کہ جن کا شریعت میں اعتبار ہے اپنے اپنے موقع پر افضل و برتر ہے، اگر معاشرہ میں خرابیاں اور برائیاں چھوت کی طرح پھیل گئی ہوں اور لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھنے میں دین و ایمان کے نقصان کا خطرہ ہو اور کوئی شخص نصیحت سننے اور اچھی بات ماننے پر تیار نہ ہو تو اس صورت میں خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کو افضل کہا جائے گا اور اگر دین و ایمان کے نقصان کا خطرہ نہ ہو، لوگ تعلیم و نصیحت کے ضرورت مند ہوں اور یہ بات معلوم ہو کہ لوگوں کو تعلیم و نصیحت کے ذریعہ نیکی کی تربیت دی جاسکتی ہے تو اس صورت میں سب کے ساتھ اختلاط رکھنے اور سماجی زندگی اختیار کرنا ہی افضل ہوگا۔ تحنث کے معنی ہیں راتوں کو عبادت کرنا جیسا کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یا کسی راوی نے فیتحنث فیہ کے بعد وہو التعبد اللیالی کے ذریعہ اس لفظ کی وضاحت کی ہے۔ بہرحال متعدد راتوں سے مراد کئی کئی روز وشب ہیں اور خاص طور پر راتوں ہی کا ذکر اس وجہ سے ہی کیا گیا ہے خلوت کے ساتھ رات ہی کا جوڑ زیادہ موزوں اور مناسب تھا نیز متعدد کی جو قید لگائی گئی ہے اس سے قلت کی طرف اشارہ مراد ہے کہ مسلسل شب وروز عبادت کی مشغولیت کا سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں بلکہ چند دنوں تک رہتا تھا، تاہم بعض حضرات نے اس سے کثرت کا مراد ہونا بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کسی بھی تسلسل کو ذکر کرنے کی ضرورت اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ وہ غیر معمولی طور دراز ہو اور زیادہ دنوں پر مشتمل ہو۔ جب تک کہ گھر والوں کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ اس غار حرا سے نکل کر شہر میں اسی وقت آتے جب مسلسل کئی کئی دنوں تک عبادت الٰہی میں مشغول رہنے کے بعد گھر والوں کی خبر لینے اور ان کے حقوق و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوجاتی۔ یہاں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ ایک روایت میں ینزع کے بجائے یرجع کا لفظ آیا ہے۔ اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے۔ کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب تک خلوت گزین اور گوشہ نشین رہے آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ عبادت کے لئے غار حرا میں چلے جاتے اور جب وہاں کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو شہر میں اپنے گھر آتے اور حضرت خدیجہ ؓ سے کچھ اور دنوں کا توشہ جیسے ستو وغیرہ لے کر اس غار میں چلے جاتے اور ان چیزوں کے لے جانے کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ بھوک پیاس کی شدت خلوت گزینی کے معمولات میں رکاوٹ نہ ڈالے اور پوری خاطر جمعی کے ساتھ عبادت میں مشغول رہ سکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بقدر توشہ اپنے ساتھ رکھنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ محققین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خلوت گزینی کی مدت ہر سال ایک مہینہ ہوتی تھی اور وہ مہینہ رمضان کا ہوتا تھا۔ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نبوت سے پہلے سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے یا اپنی عقل سے جس عمل کو اچھا سمجھتے تھے اس پر عامل رہتے تھے اور یا ہر شریعت میں سے ہر اس عمل کو اختیار فرماتے جس کو آپ ﷺ افضل واعلی سمجھتے تھے؟ اور یہ کہ اگر سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے تو وہ کونسی شریعت تھی؟ بہت سے علماء نے اگرچہ اس قول کو اختیار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی نبوت و شریعت کے ظہور سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر عمل کرتے تھے اسی لئے ایک روایت میں یتحنث کے بجائے یتحنف کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ دین حنیف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر عمل کرتے تھے لیکن اس سلسلہ میں زیادہ موزوں اور مناسب اور زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قبل نبوت آنحضرت ﷺ عملی طور پر کسی دین اور کسی شریعت کے تابع نہیں تھے بلکہ براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب و دماغ کو بصیرت کا وہ نور عطا فرمایا گیا تھا جو نیک اور اچھے عمل کی طرف آپ ﷺ کی رہنمائی کرتا تھا اور اس طرح آپ ﷺ خود بخود وہی کام اور وہی عمل کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور مقبول ہوتا تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی عبادت کا تعلق ذکر وشغل سے ہوتا تھا یا فکر واستغراق سے؟ اس بارے میں بھی کئی قول ہیں اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کی عبادت ذکر وشغل کی صورت میں ہوتی تھی نہ کہ فکر واستغراق کی صورت میں۔ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ کا مطلب یا تو یہ تھا کہ میں اچھی طرح پڑھنے پر قادر نہیں ہوں یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی زبان سے یہ جواب اس خوف و دہشت کی بنا پر نکلا جو اچانک ایک فرشتہ کو دیکھنے اور موقع ومحل کے نہایت پر رعب ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے دل و دماغ پر طاری ہوگیا تھا، لہٰذا یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ جواب اس لئے دیا کہ آپ ﷺ امی تھے اور واقعتہ پڑھنے پر قادر نہیں تھے، کیونکہ امی (ان پڑھ) اس شخص کو کہتے ہیں جو پڑھنا نہ جانے اور ظاہر ہے کہ کسی کے پڑھانے اور سکھانے سے پڑھنا (یعنی کسی کی زبان سے کوئی عبارت اور جملہ سن کر اپنی زبان سے ادا کرنا) امی ہونے کے منافی نہیں ہے خصوصًا ایسے شخص کے حق میں جو فصاحت اور ذہانت میں کامل ہو، جہاں تک کسی لکھی ہوئی عبارت کو دیکھ کر پڑھنے یا لکھنے کا تعلق ہے تو یہ چیز امی ہونے کے منافی ہے چناچہ قاموس میں لکھا ہے امی اس شخص کو کہتے ہیں جو لکھنا اور کتاب پڑھنا نہ جانے۔ بعض روایتوں میں یہ منقول ہے کہ اس موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک حریری صحیفہ جو جواہرات سے مرصع تھا آنحضرت ﷺ کو دیا اور آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اس کو پڑھو، آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا اور ان حریری اوراق میں مجھے کچھ لکھا ہوا نظر نہیں آتا میں کیا پڑھوں۔ اس روایت کی روشنی میں میں پڑھنا نہیں جانتا کے معنی زیادہ واضح اور موزوں طور پر متعین کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں تک میں پریشان ہوگیا حتی بلغ منی الجہد کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ لفظ جہد میں حرف ومنصوب یعنی جہد پڑھا جائے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کو اپنے سینہ سے لگا کر بہت زور سے بھینچا جس سے آنحضرت ﷺ کو کچھ تکلیف بھی محسوس ہوئی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا یہ عمل دراصل آنحضرت ﷺ کے وجود پاک میں ملکوتی نور اور قلب مبارک میں وحی کے عرفان کو منتقل کرنے کی ایک ایسی صورت تھی جس کا مقصد آنحضرت ﷺ کو وحی الہٰی کی عظمتوں کے تحمل کی طاقت وقوت فراہم کرنا تھا۔ اور اگر لفظ جہد کے ج کو مرفوع یعنی جہد پڑھا جائے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اتنے زور سے بھینچا کہ خود انہیں بڑی مشقت اٹھانا پڑی۔ جس نے تمہیں اور ہر چیز کو پیدا کیا کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی ذاتی صلاحیت و طاقت یا کسی دوسرے کی مدد پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرنا چاہئے بلکہ ہر معاملہ میں اور ہر مرحلہ میں صرف اللہ تعالیٰ پر تکیہ کرنا چاہئے اور اسی سے مدد کا طلب گار رہنا چاہئے کیونکہ اس نے ہر ایک کو پیدا کیا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس موقع پر ایک خاص بحث کردینا ضروری ہے، اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سے سورت نازل ہوئی ہے؟ جیسا کہ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، جمہور علماء و مفسرین کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے سورت اقراء نازل ہوئی ہے لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت یا ایہا المدثر ہے، گو یہ قول بہت کمزور ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا نہیں ہے لیکن ملا علی قاری (رح) نے اس ضمن میں جو لکھا ہے اس سے ان دونوں اقوال کے درمیان بڑی تطبیق ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا ہے! میرے نزدیک یہ کہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورت اقرء تو حقیقی پہلی سورت ہے اور یا ایہا المدثر اضافی پہلی سورت ہے یعنی پہلی وحی (سورۃ اقرء) نازل ہونے کے بعد نزول وحی کا جو سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے منقطع ہوگیا تھا اور پھر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے پہلے یا ایہا المدثر۔ نازل ہوئی۔ ضمنی طور پر اس بات کا ذکر بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان حضرات کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورت کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کا نزول دو سورتوں کے درمیان فصل قائم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دی۔ میں قلم سے مراد وہ قلم قدرت بھی ہوسکتا ہے جو اللہ کے حکم سے اولین وآخرین کے تمام علوم کو ضبط تحریر میں لایا اور تمام آسمانی کتابوں کے معرض وجود میں آنے کا اولین ذریعہ بنا اور ہماری دنیا کا یہ قلم بھی مراد ہوسکتا ہے جو حقیقت میں اس کائنات انسانی میں قلم وقدرت کا مظہر اور مثال ہے اور جس کے ذریعہ انسان اللہ کے عطا کردہ نور علم و ذہانت کی مدد سے نہ معلوم کتنے علوم و حقائق کا اظہار وانکشاف کرتا ہے۔ مشہور تفسیر کشاف میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہمارا یہ قلم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا عظیم مظہر ہے کہ عجیب و غریب علوم اس کے ذریعہ لکھے جاتے ہیں۔ انسان کی ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ جانتا نہیں تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اپنے بس کی بات نہیں تھی کہ زمان ومکان میں ہر لمحہ وجود پذیر ہونے والی نئی نئی چیزوں کے علم وانکشاف پر قادر ہوتا، یہ تو اللہ کے عطا کردہ اس نور علم و ذہانت کا کرشمہ ہے جو انسان کو علم و معرفت کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں انسان سے مراد انسان کامل یعنی آنحضرت ﷺ کی ذات ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے۔ وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ اور ہر وہ چیز آپ ﷺ کو سکھائی جو آپ ﷺ نہیں جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ مجھ کو اپنی جان ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اس اظہار خوف کی مختلف وجوہ ہوسکتی تھیں، یا تو اس صورت سے آپ ﷺ کو دفعۃً اتنا شدید خوف طاری ہوگیا تھا کہ آپ ﷺ ہلاکت یا دماغی توازن کے درہم برہم ہوجانے کے خطرہ کو محسوس کرنے لگے تھے، یا یہ کہ آپ ﷺ کو یہ ڈر تھا کہ منصب نبوت کا بار برداشت سے باہر نہ ہوجائے یا اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں جو مصائب وپریشانیاں اٹھانا پڑیں گی، قوم کی طرف سے جن ایذاؤں اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا قتل و غارت گری کی جو دھمکیاں ملیں گی اور لوگ جس طرح تکذیب و استہزاء کا سلوک کریں گے ان پر صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور یا آپ کو یہ خوف تھا کہ اہل وطن مجھے اپنے شہر اور وطن سے نکال دیں گے جس کی وجہ سے اپنے محبوب وطن اور کعبۃ اللہ کا قرب چھوٹ جائے گا۔ آپ ﷺ (دوسروں کا) بوجھ اٹھاتے ہیں۔ یہ تحمل الکل کا ترجمہ ہے اور کل اصل میں بوجھ اور بار کو کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے کہ اہل و عیال کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کی کفالت ایک بوجھ اور بار ہوتا ہے۔ اہل و عیال کو بھی کل کہا جاتا ہے لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اپنے اہل و عیال اور زیر کفالت لوگوں کے خرچ واخراجات اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش دلی کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی محنت ومشقت بھی آپ ﷺ کو بدل نہیں سکتی اگرچہ وہ لوگ کہ جن کا بوجھ آپ ﷺ اٹھاتے ہیں آپ سے ترک تعلق اور بےمروتی کا معاملہ کیوں نہ کریں۔ واضح رہے کہ یہاں بوجھ اٹھانے کے معنی میں ضعیفوں، یتیموں، بیواؤں اور ناداروں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ آپ غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں۔ یہ تکسب المعدوم کا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ تکسب کو ت کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے، جیسا کہ زیادہ صحیح اور مشہور ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ت کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ آپ ﷺ غریبوں اور مسکینوں کی کمانے میں مدد کرتے ہیں، یعنی ان کو روپیہ پیسہ اور مال دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ اس کے ذریعہ کسب و تجارت کی صورت میں اپنی معاشی حالت درست کریں اور افلاس وتنگ دستی سے چھٹکارا پائیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں مفہوم ومطلب ایک ہی ہوگا۔ یعنی نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرنا۔ بعض حضرات نے معدوم کا مصداق صرف فقیر کو قرار دیا ہے جو عدم تصرف اور بالکل محتاج ہونے کے اعتبار سے گویا ایک لاشہ ہوتا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ اپنا مال فقیروں پر خرچ کرکے گویا ان کی زندگی اور ان میں حرکت وعمل پیدا ہوجانے کا سبب بنتے ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں کے حقیقی حادثات و مصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تعین علی نوائب الحق کا ترجمہ ہے نوائب اصل میں نائبۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ مصیبت و ضرورت جو آن پڑے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ہر اس شخص کی مدد واعانت فرماتے ہیں جو کسی حقیقی حادثہ اور مصیبت کے سبب درماندہ اور عاجز ہوجاتا ہے مثلا جو قرض یا دیت کے مال کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتا اور فقروافلاس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی مصیبت کو ٹال نہیں پاتا آپ ﷺ اس کی مالی مدد دے کر اس مصیبت سے نجات دلاتے ہیں۔ نوائب الحق کی قید سے معلوم ہوا کہ اسی مصیبت زدہ کی مددواعانت مستحسن و مطلوب ہے جو قدرتی طور پر مجبور و لاچار ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی مصیبت کا خود سبب بنا ہو، اس نے اپنی حرکتوں اور بےعملیوں سے اپنے اوپر مصیبت نازل کرلی ہو جیسے اسراف کی صورت میں اپنا مال وزر لٹا بیٹھا ہو، یا ناروا اطوار غصب وغصہ کرکے خود کو کسی نقصان اور آفت میں مبتلا کر بیٹھا ہو تو اس کی مدد کرنا مستحسن و مطلوب نہیں ہے۔ حضرت خدیجہ رضی للہ تعالیٰ عنہا نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے محاسن و اوصاف کا ذکر کر کے آپ ﷺ کو جس طرح تسلی دی اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اخلاق اور اچھی خصلتیں انسان کو کسی نقصان اور آفت میں پڑنے سے بچاتی ہیں اور حق تعالیٰ ان اوصاف و محاسن کے طفیل میں امن و سلامتی عطا فرماتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو دین ودنیا کی ہر آفت و مصیبت سے محفوظ و سلامت رکھے گا۔ اس سے حضرت خدیجہ ؓ کے بارے میں بھی ثابت ہوا کہ وہ انتہائی فراست و بصیرت، معرفت وفقاہت اور دور اندیشی وسمجھداری کے بلندوبالامقام پر فائز تھیں اور کیوں نہ ہوتیں جب کہ مدت درازتک آنحضرت ﷺ کی زوجیت و خدمت میں رہیں اور آنحضرت ﷺ پر حقیقی معنی میں سب سے پہلے ایمان لائیں، اس وصف میں میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خاص مصلحت و حکمت کے تحت بعض حالات میں کسی شخص کی اچھائیوں اور خوبیوں کی تعریف اس کے منہ پر کرنا جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا اور کوئی شخص کسی معاملہ میں خوف زدہ ہو تو اس کو اطمینان و تسلی دینا اور اس کے سامنے امن و سلامتی کے اسباب کا ذکر کرنا چاہئے، نیز اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا فقر اپنا اختیار کردہ اور پسندیدہ تھا، نہ کہ اضطراری اور غیر پسندیدہ تھا جس کا اصل منشاء سخاوت و کرم کے درجہ کمال کا اظہار تھا علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت ﷺ میں ان اچھائیوں اور خوبیوں کا نبوت سے بھی موجود ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تمام انسانی و اخلاقی اوصاف و محاسن آپ ﷺ کی ذات میں طبعی وخلقی طور پر تھے۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ ؓ کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے، کیونکہ وہ خالد ابن اسد ابن عبدالعزی کی بیٹی تھی اور ورقہ، نوفل ابن عبد العزی کے بیٹے تھے، ورقہ اگرچہ مشرکین مکہ ہی سے نسبی تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نصرانیت (عیسائی مذہب) اختیار کرلیا تھا، پھر انہوں نے انجیل پر بڑا عبور حاصل کیا اور عربی میں اس کا ترجمہ کیا ظہور نبوت کے وقت جب حضرت خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کو لے کر ورقہ کے پاس گئیں تو اس زمانہ میں وہ بہت زیادہ ضعیف اور بوڑھے ہوچکے تھے، یہاں تک کہ آنکھوں کی بینائی بھی بالکل ختم ہوگئی تھی۔ اے ابن عم! اپنے بھتیجے کی روداد سن لیئجے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کو ورقہ کا بھتیجا محض ورقہ کے بڑھاپے کی بنا پر اور ان کی تعظیم کے پیش نظر کہا کہ آنحضرت ﷺ حقیقت میں ورقہ کے بھتیجے تھے، ویسے یہ عرب کا عام دستور تھا کہ لوگ آپس میں ملاقات و مخاطب کے وقت ایک دوسرے کو چچا بھتیجا کہتے تھے۔ یہ تو وہی ناموس (فرشتہ) ہے۔۔۔۔۔ الخ۔۔ ناموس اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بادشاہ کا راز دار اور معتمد علیہ ہو، اس مناسبت سے اہل کتاب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ناموس کہا کرتے تھے، بعض حضرات نے کہا کہ ناموس خیریت (اچھی باتوں) کے راز دار کو کہتے ہیں اور جاموس شر (بری باتوں) کے راز دار کو کہا جاتا ہے۔ ورقہ ابن نوفل چونکہ نصرانیت کے پیرو تھے اس اعتبار سے ان کے لئے مناسب اور موزوں یہ تھا کہ وہ یوں کہتے یہ وہی ناموس ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجتا تھا۔ لیکن انہوں نے بےجاطور پر دینی تعصب کا شکار ہونے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرنے کے بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتاب و شریعت کی جامعیت کے اعتبار سے زیادہ جلیل القدر پیغمبر تھے۔ تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد کروں گا۔ کے تحت بعض علماء اور شارحین نے تو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ورقہ کے ایمان لانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے، اگر یہ واقعہ نبوت کے ثابت وظاہر ہونے کے بعد کا ہے تو ظاہر ہے کہ ورقہ کو صحابی کہا جائے گا۔ اور اگر اس واقعہ کا تعلق اظہار نبوت کے بالکل ابتدائی مراحل سے ہے تو اس صورت میں ورقہ کو صحابی نہیں کہا جائے گا۔ اور ملاعلی قاری نے قاموس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ورقہ کے ایمان واسلام کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، اور پھر آنحضرت ﷺ پر وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ یعنی جب آنحضرت ﷺ پر یہ پہلی وحی آئی اور آپ ﷺ کی نبوت ثابت و ظاہر ہوگئی تو اس کے بعد وحی آنی موقوف ہوگئی، بعض حضرات کہتے ہیں کہ پھر تین سال تک کوئی وحی نہیں آئی، بعض حضرات نے یہ مدت چھ ماہ اور بعض نے اڑھائی ماہ بیان کی ہے۔ نیز علامہ ابن حجر لکھتے ہیں سلسلہ وحی کے منقطع ہوجانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت اقرء اور یا ایہا المدثر کے نزول کے درمیان آنحضرت ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا تھا بلکہ انقطاع وحی سے مراد نزول قرآن کے سلسلہ کا موقوف ہوجانا ہے، اس عرصہ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تو آتے رہتے تھے لیکن قرآن نہیں لاتے تھے اور کچھ عرصہ کے لئے نزول وحی کے موقوف ہوجانے میں مصلحت و حکمت یہ تھی کہ ابتدائی مرحلہ پر آنحضرت ﷺ کے دل جو خوف وہراس پیدا ہوگیا تھا اس کے اثرات زائل ہوجائیں اور اس خوف وہراس کی جگہ شوق و انتظار کے جذبات پیدا ہوجائیں۔ دیر ست کہ دلدار پیامے نہ فرستاد ننوشت سلامے وکلامے نہ فرستاد
Top