مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5754
وعن علي أن يهوديا يقال له : فلان حبر كان له على رسول الله صلى الله عليه و سلم في دنانير فتقاضى النبي صلى الله عليه و سلم فقال له : يا يهودي ما عندي ما أعطيك . قال : فإني لا أفارقك يا محمد حتى تعطيني . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا أجلس معك فجلس معه فصلى رسول الله صلى الله عليه و سلم الظهر والعصر والمغرب والعشاء الآخرة والغداة وكان أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم يتهددونه ويتوعدونه ففطن رسول الله صلى الله عليه و سلم ما الذي يصنعون به . فقالوا : يا رسول الله يهودي يحبسك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : منعني ربي أن أظلم معاهدا وغيره فلما ترجل النهار قال اليهودي : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أنك رسول الله وشطر مالي في سبيل الله أما والله ما فعلت بك الذي فعلت بك إلا لأنظر إلى نعتك في التوراة : محمد بن عبد الله مولده بمكة ومهاجره بطيبة وملكه بالشام ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق ولا متزي بالفحش ولا قول الخنا أشهد أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وهذا مالي فاحكم فيه بما أراك الله وكان اليهودي كثير المال . رواه البيهقي في دلائل النبوة
آنحضرت ﷺ کا حسن اخلاق اور ایک یہودی :
حضرت علی کرم وجہہ راوی ہیں کہ (مدینہ میں) فلاں نام کا ایک یہودی عالم تھا اس کے کچھ دینار نبی کریم ﷺ پر چاہئیں تھے (ایک دن) اس یہودی عالم نے آکر نبی کریم ﷺ سے ان دیناروں کا تقاضا کیا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ، اے یہودی! تمہیں دینے کے لئے اس وقت میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے (یعنی نہ تو میرے پاس دینار ہیں کہ تمہارا قرض چکا دوں اور نہ کوئی ایسی چیز ہے جوان دیناروں کے بدلہ میں تمہیں دے کر تمہارا مطالبہ بےباق کردوں) یہودی نے کہا محمد ﷺ میں اس وقت تک تمہارے پاس سے نہیں ہٹوں گا جب تک تم میرا قرض ادا نہیں کر دوگے۔ رسول کریم ﷺ نے جواب دیا، (اچھا بھائی اگر یہی بات ہے کہ جب تک تم نہیں کہو گے تمہارے سامنے سے نہیں ہٹوں گا) اور (یہ فرما کر) آپ ﷺ اس کے پاس بیٹھ گئے اور اسی جگہ (یہودی کے سامنے) رسول کریم ﷺ نے ظہر عصر کی مغرب کی عشاء کی اور پھر (اگلی صبح) فجر کی نماز پڑھی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (یہ صورت حال دیکھ کر سخت طیش میں آرہے تھے اور بار بار) اس یہودی کو ڈرا دھمکا رہے تھے ( اور کہہ رہے تھے کہ اگر تو اپنی گستاخی سے باز نہ آیا اور آنحضرت ﷺ کو اس طرح پابند بنائے رکھا تو مجبوراً ہم تجھے یہاں سے اٹھا کر پھینک دیں گے یا قتل کر ڈالیں گے) لیکن جب رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس یہودی کو ڈرا دھمکا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے ان کو (سختی سے) منع فرمایا (یا غضبناک نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ کر گویا واضح کیا کہ تمہارا یہ عمل مجھے ہرگز پسند نہیں ہے) صحابہ کرام نے (آنحضرت ﷺ کی ناگواری دیکھ کر معذرت کے انداز میں) عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ یہ ایک یہودی ہو کر آپ ﷺ کو پابند بنائے ہوئے ہیں اور یہاں بیٹھے رہنے مجبور کررہا ہے (ہم اس گستاخانہ حرکت کو کیسے برداشت کریں؟ ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا (کیا تمہیں نہیں معلوم کہ) اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کیا ہے کہ میں اس شخص پر ظلم کروں جس سے عہد کیا گیا ہو یا وہ کوئی بھی ہو۔ جب دن نکلا تو وہ یہودی (آنحضرت ﷺ کا کردار و اخلاق دیکھ کر بےساختہ) بول اٹھا! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ یقینًا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں (پھر اس نے کہا کہ یا رسول! ) میں (قبول اسلام کی توفیق ملنے کے شکرانہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور زیادہ اجروانعام کی امید میں اپنے مال وزرکا آدھا) حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ (آپ ﷺ اور یہاں موجود سارے صحابہ کرام) جان لیں کہ اللہ کی قسم میں نے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ میں آپ ﷺ میں ان اوصاف کو آزمانا چاہتا تھا جس کا ذکر تورات میں موجود ہے (اور تورات میں وہ اوصاف اس طرح مذکور ہیں) کہ ان کا اسم گرامی محمد ﷺ ہوگا عبداللہ کے بیٹے ہوں گے، ان کی پیدائش مکہ میں ہوگی وہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے، ان کی مملکت کی سرحدیں ملک شام (اور اس کے گردو نواح) تک پھیلی ہوں گی، وہ نہ بد زبان ہوں گے نہ سنگدل نہ بازاروں میں شورمچانے والے ہوں گے، نہ فحش کی وضع اختیار کرنے والے اور نہ بیہودہ بات بکنے والے ہوں گے اس نے توراۃ میں مذکور یہ باتیں سنانے کے بعد ایک مرتبہ پھر کلمہ شہادت پڑھا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ یقینًا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (یا رسول اللہ ﷺ! ) یہ میرا مال حاضر ہے آپ ﷺ اللہ کے حکم کی روشنی میں اس کے متعلق جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ (راوی کا بیان ہے کہ) وہ یہودی بہت مالدار تھا ( اور اللہ نے اس کے مال ساتھ اس کا حال و مال بھی اچھا کیا) اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے تمام دن ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے گذار دیا اور پوری رات اسی طرح یہودی کے ساتھ بیٹھے رہے، نہ سوئے نہ آرام کیا۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مسجد نبوی کے اندر پیش آیا تھا لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کسی دوسری جگہ تھے اور وہیں وہ یہودی آگیا، اسی جگہ (خواہ مکان ہو یا کوئی کھلی ہوئی جگہ) آنحضرت ﷺ اس یہودی کے ساتھ تمام دن اور رات بیٹھے رہ گئے۔ ……۔۔ یا وہ کوئی بھی ہو یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے، یعنی آپ ﷺ نے پہلے تو خصوصی طور پر معاہد ( جس سے عہد کیا گیا ہو) کا ذکر کیا کہ یہ یہودی ان دمیوں میں سے ہے جن کو ہم نے اپنی پناہ اور اپنی حفاظت میں رکھنے کا عہد دیا ہے اگر میں اس کا قرض واپس کئے بغیر اس سے الگ ہوجاؤں اور اس کے پاس بیٹھنے سے انکار کردوں تو یہ میری طرف سے اس پر ظلم ہوگا اور ظاہر ہے کہ کسی معاہد پر ظلم کرنے سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو منع کیا ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ معاہد ہی کیا مجھے تو کسی بھی شخص پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا ہے خواہ وہ معاہد ہو یا غیر معاہد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ پس اس موقع پر آپ ﷺ نے تعمیم کے بعد تخصیص کے بجائے تخصیص کے بعد تمیم کا اسلوب اس لئے اختیار فرمایا کہ یہ موقع اسی اسلوب کا متقاضی تھا، یا آپ ﷺ نے اس بات کو پیش نظر رکھا کہ اگر دنیا میں کسی مسلمان کی حق تلفی ہو یا اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ ہوجائے تو قیامت کے دن اس مسلمان کو تو حق مارنے والے یا ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمان کی نیکیاں دے کر راضی کرنا ممکن ہوگا لیکن غیر مسلم ذمی (معاہد) کو اس کا حق مارنے والے یا اس ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمان کی نیکیاں دے کر بھی راضی کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو کسی مسلمان کی نیکیاں اس کو دلوائی جاسکتی ہیں اور نہ وہ نیکیاں اس کے کچھ کام ہی آسکیں گی، اس اعتبار سے قیامت کے دن معاہد کی طرف سے کسی مسلمان کے خلاف ظلم کی فریاد اور اپنے حق کی چارہ جوئی زیادہ سخت مرحلہ ہوگا لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے خاص طور پر معاہد کا ذکر کیا اور اس کے بعد عمومی طور پر ہر ایک کا ذکر کیا۔ اس موقع پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اس وقت اس یہودی کا قرض ادا کرنے سے اس درجہ معذور تھے کہ یہودی کی طرف سے عائد کردہ اتنی سخت پابندی آپ ﷺ کو برداشت کرنا پڑی تو کیا وہاں موجود صحابہ کرام اس قرض کی ادائیگی پر قادر نہیں تھے؟، اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہی بات رہی ہوگی کہ وہ صحابہ کرام بھی آنحضرت ﷺ کے اس قرض کی ادائیگی پر اس وقت قادر نہیں تھے، دوسرے یہ کہ اس یہودی کا جو اصل مقصد تھا یعنی اخلاق و کردار اور ان اوصاف کو آزمانا جن کا ذکر تورات میں اس نے پایا تھا، اس کے پیش نظر وہ صحابہ کرام کی طرف سے اس قرض کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوا ہوگا۔ یہ میرا مال حاضر ہے اس نے یہ جملہ مال کی طرف یا اس جگہ کی طرف جہاں اس کا مال تھا، اشارہ کرکے کہا اور پھر اس نے آنحضرت ﷺ کو مختیار بنادیا کہ آپ ﷺ اس مال کو اللہ کی رضا وخوشنوی اور دین وملت کے مفاد میں جس طرح خرچ کرنا مناسب سمجھیں خرچ کریں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کی مراد اپنا کل مال تھا پہلے تو اس نے اپنے کل مال کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا مگر جب ایمان کا نور اس کے دل میں اچھی طرح گھر کر گیا اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت اس پر غالب آگئی تو اس نے نہ صرف کل مال اللہ کی راہ میں دے دینے کا بلکہ اپنی جان تک کو پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔
Top