مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5740
وعن عائشة قالت : ما خير رسول الله صلى الله عليه و سلم بين أمرين قط إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما فإن كان إثما كان أبعد الناس منه وما انتقم رسول الله صلى الله عليه و سلم لنفسه في شيء قط إلا أن ينتهك حرمة الله فينتقم لله بها . متفق عليه
کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے :
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کو چن لینے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ہمیشہ اسی کام کو چنتے جو ہلکا اور آسان ہوتا، بشرطیکہ وہ گناہ کا موجب نہ ہوتا، اگر وہ (ہلکا اور آسان) کام گناہ کا موجب ہوتا تو آپ اس سے سب سے دور رہنے والے شخص ہوتے۔ اور آنحضرت ﷺ اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے، ہاں اگر کوئی ایسی بات ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے تو پھر آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے (حکم کے) پیش نظر اس کی سزادیتے تھے۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
اس حدیث کی وضاحت میں علماء اور شارحین نے لکھا ہے کہ اختیار دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی ہوسکتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کا معصوم عن الخطا ہونانص سے ثابت ہے اور کسی گناہ کی طرف آپ ﷺ کی نسبت ہو ہی نہیں سکتی، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو ایسی دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پسند کرلینے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا جس میں سے کوئی بھی ایک چیز گناہ کا موجب ہوتی؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ بشرطیکہ اس میں گناہ کی کوئی بات ہوتی۔ میں گناہ سے مراد وہ چیز ہے جو بذات خود تو گناہ کی نہ ہو لیکن وہ کسی بھی درجہ میں گناہ تک پہنچانے کا احتمال رکھتی ہو۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اخیتار دیا تھا کہ دنیاوی زندگی گذارنے کے لئے چاہے دنیا کے خزانے لے لیں جو آپ ﷺ کو دیئے جائیں گے، چاہے بقدر ضرورت و حاجت روزی پر قناعت کریں، ان دونوں میں سے دوسری چیز کو آپ ﷺ نے اختیار فرمایا اور پہلی چیز کو آپ ﷺ نے اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ اگر دنیاوی مال و دولت کے خزانے بذات خود کوئی گناہ کی چیز نہیں لیکن اس بات کا احتمال ضرور ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے کاروبار اور معاملات میں اس طرح مشغول و مصروف ہوجائے کہ عبادت اور دینی امور کی طرف ضروری توجہ بھی نہ دے سکے پس اس حدیث کا اطلاق اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے پر کیا جائے تو یہ بات ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ گناہ سے مراد واقعی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ چیز مراد ہے جو گناہ کے احتمال کو ظاہر کرنے والی ہو اور ایسی چیز بذات خود گناہ میں شمار نہیں ہوتی۔ لوگوں کی طرف سے اختیار ملنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ کافروں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو، اس صورت میں بالکل ظاہر ہے کہ ان دو چیزوں میں سے ایک چیز گناہ کا موجب ضرور ہوتی ہوگی اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں گناہ سے مراد وہ چیز ہوگی جو گناہ کا باعث بنتی ہو جیسے مجاہدہ اور اقتصاد کے درمیان اختیار ملنا، ظاہر ہے کہ مجاہدہ اگرچہ گناہ کی چیز نہیں ہے لیکن اگر مجاہدہ میں اتنی زیادتی اور شدت اختیار کی جائے جو ہلاکت تک پہنچا دے تو مجاہدہ ناجائز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے کی صورت وہ بھی مراد ہوسکتی ہے جس کا تعلق آپ کی ذات سے نہیں، بلکہ آپ ﷺ کے واسطہ سے دوسروں کی ذات سے ہو مثلا اگر اختیار دیا جاتا کہ آپ اپنی امت کے حق میں فلاں گناہ کی ان دو سزاؤں میں سے کسی ایک سزا کو پسند کرلیجئے تو آپ اس سزا کو پسند کرتے جو ہلکی ہوتی، یا اگر یہ کہا جاتا کہ آپ ﷺ اپنی امت کے حق میں ان دو چیزوں میں سے اس چیز کو پسند فرماتے جو سزا کا مستوجب کرنے والی نہ ہوتی، یا مثلا آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ جو کفار آپ ﷺ کے زیر تسلط آئیں ان کو چاہے قتل کردیجئے چاہے ان پر جزیہ عائد کر کے ان کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کیجئے آپ ﷺ نے جزیہ کی صورت کو پسند فرما لی اور یا آپ ﷺ کو اللہ کے حق میں اختیار دیا گیا تھا کہ اس کی عبادت میں چاہے مجاہدہ کو پسند کرلیں، چاہے اقتصاد کو، آپ ﷺ نے اقتصاد کو پسند فرمایا۔ اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے۔ کے بارے میں ابن حجر نے لکھا ہے! اس کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی کسی غلطی یا جرم کی سزا اپنی ذات کا انتقام لینے یا اپنی طبعی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں دیتے تھے۔ اس وضاحت سے آپ ﷺ کے اس عمل پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا کہ آپ ﷺ نے ایسے کئی لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا جنہوں نے آپ ﷺ کو سخت ایذائیں پہنچائی تھیں ان لوگوں کے قتل کا حکم اس جرم کی سزا دینے کے لئے تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی باتوں کا ارتکاب کیا تھا اور اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ جانے کے سبب اللہ کی طرف سے سزا کے مستوجب بن چکے تھے۔
Top