سنن ابنِ ماجہ - - حدیث نمبر 3485
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : غزا نبي من الأنبياء فقال لقومه : لا يتبعني رجل ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن بها ولا أحد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها ولا رجل اشترى غنما أو خلفات وهو ينتظر ولادها فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس : إنك مأمورة وأنا مأمور اللهم احبسها علينا فحبست حتى فتح الله عليه فجمع الغنائم فجاءت يعني النار لتأكلها فلم تطعمها فقال : إن فيكم غلولا فليبايعني من كل قبيلة رجل فلزقت يد رجل بيده فقال : فيكم الغلول فجاؤوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب فوضعها فجاءت النار فأكلتها . زاد في رواية : فلم تحل الغنائم لأحد قبلنا ثم أحل الله لنا الغنائم رأى ضعفنا وعجزنا فأحلها لنا
اپنے دشمنوں کے حق میں بھی بدعا نہیں فرماتے تھے :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ (اپنے دشمنوں) کافروں کے حق میں بددعا فرمائیے، تاکہ وہ ہلاک ہوں اور ان کی جڑ اکھڑجائے) تو فرمایا مجھ کو لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے (مسلم )

تشریح
مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں سارے جہاں کے لئے رحمت کا باعث ہوں کیا مؤمن اور کیا کافر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وما ارسلنک الا رحمتہ للعلمین۔ اور آپ ﷺ کو تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اس صورت میں جب کہ سب ہی کے حق میں رحمت کر بھیجا گیا ہوں، کافروں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں خواہ وہ میرے کیسے ہی دشمن کیوں نہ ہوں۔ اہل ایمان کے حق میں آنحضرت ﷺ کا باعث رحمت ہونا تو ظاہرہی ہے رہی کافروں کی بات تو ان کے حق میں آپ ﷺ کا باعث رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی، سرکشی اور دشمنی کے باوجود محض آنحضرت ﷺ کے بابرکت وجود کے باعث ان پر سے دنیا کا عذاب اٹھا لیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان پر (دنیا میں) عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی اس برکت کو حیات مبارکہ تک ہی محدود نہیں رکھا، ہمیشہ کے لئے اس برکت کو باقی رکھا اور طے فرما دیا کہ کلی استیصال کا عذاب قیامت تک نازل نہیں ہوگا، جب کہ کتنی ہی گذشتہ امتیں اپنے پیغمبروں کی بددعا کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں اور ان کا معمولی ساوجود بھی باقی نہ رہا۔ علامہ طیبی (رح) لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لئے نہیں آیا ہوں کہ کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کروں بلکہ اس دنیا میں میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ ہدایت، اپنی تعلیمات اور اخلاق کی طاقت سے لوگوں کو اللہ اور اس کی رحمت کے قریب کروں، ایسی صورت میں جب کہ کسی کے حق میں بددعا کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا میری شان سے بعید اور میرے حال کے غیر مناسب ہے تو میں ان کافروں کے حق میں بھی کیسے بددعا کروں اور کس طرح ان پر لعنت بھیجوں۔
Top