مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5730
وعن جبير بن مطعم بينما هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه و سلم مقفله من حنين فعلقت الأعراب يسألونه حتى اضطروه إلى سمرة فخطفت رداءه فوقف النبي صلى الله عليه و سلم فقال : أعطوني ردائي لو كان لي عدد هذه العضاة نعم لقسمته بينكم ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذوبا ولا جبانا . رواه البخاري
خلق نبوی ﷺ :
حضرت جبیر ابن مطعم ؓ اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ حنین سے واپس آرہے تھے کہ (راستہ میں ایک مقام پر) کچھ (غریب) دیہاتی آپ ﷺ کو لپٹ گئے اور (غنیمت کا مال) مانگنے لگے اور اس حد تک پیچھے پڑگئے کہ آپ کو (کھینچتے ہوئے) ایک کیکر کے درخت تک لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ کی چادر کیکر کے کانٹوں میں الجھ کر رہ گئی آپ (بڑی بےچارگی کے ساتھ) رک گئے اور فرمایا لاؤ میری چادر تو دے دو، اگر میرے پاس ان خار دار درختوں کے برابر بھی چوپائے (یعنی بکریاں اور اونٹ وغیرہ) ہوتے تو میں ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور تم جان لیتے کہ میں نہ بخیل ہوں نہ جھوٹا وعدہ کرنے والا اور نہ چھوٹے دل والا ہوں۔ (بخاری)

تشریح
غزوہ حنین وہ مشہور جنگ ہے جو فتح مکہ کے فورا بعد طائف اور مکہ کے درمیان آباد بنوہوازن وبنوثقیف اور ان کے حلیف قبائل سے آنحضرت ﷺ کو کرنا پڑی تھی۔ اس جنگ میں ابتدائی طور پر کچھ سخت پریشانیوں اور قدرے ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو زبر دست فتح حاصل ہوئی تھی، دشمن کے چھ ہزار قیدیوں کے علاوہ مال غنیمت میں ٤٤ ہزار اونٹ، ٤٤ ہزار سے زیادہ بھیڑبکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آئی، اس معرکہ میں مدینہ کے دس ہزار مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اہل مکہ میں کے وہ دو ہزار لوگ بھی شامل تھے جو فتح مکہ کے موقع پر نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے آپ ﷺ نے عزوہ حنین کا سارا مال غنیمت میدان جنگ کے قریب ہی مقام جعرانہ میں جمع کرنے کا حکم دیا اور وہیں سے اہل طائف کی شورش کو دبانے کے لئے طائف تشریف لے گئے طائف کی مہم میں کامیاب ہو کر مقام جعرانہ واپس آئے اور وہاں جمع شدہ مال غنیمت کی تقسیم شروع فرمائی زیادہ تر مال آپ ﷺ نے اہل مکہ کی تالیف قلب کے لئے ان کو دے دیا دوسرے مستحقین کو بھی عطا فرمایا اور ایک شخص کو اس کے سوال پر بہت زیادہ بکریاں دینے کا وہ واقعہ، جس کا ذکر پیچھے کی حدیث میں گذرا اسی موقع پر پیش آیا تھا اس طرح جب آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو سارا مال و اسباب تقسیم کرکے ختم کرچکے تھے، لہٰذا آگے چل کر راستہ میں جب کچھ دیہاتیوں نے آپ ﷺ سے کچھ سوال کیا تو آپ ﷺ ان کا سوال پورا نہ کرسکے، ایک طرف تو یہ مجبوری تھی کہ سارا مال و اسباب ختم ہوجانے کی وجہ سے آپ ﷺ ان کو کچھ دے نہیں سکتے تھے دوسری طرف صفائی کے ساتھ انکار کرکے ان کی دل شکنی بھی گوار انہیں تھی لیکن جب ان لوگوں نے تنگ و پریشان کرنے کی حد تک آپ ﷺ کا پیچھا پکڑ لیا تو آپ ﷺ نے ان سے مذکورہ جملے ارشاد فرمائے جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا سوال پورا نہ کرنے کا حقیقی سبب یہ ہے کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے، جو مال اسباب میرے پاس تھا سب کچھ تقسیم کرچکا ہوں، اگر میرے پاس اس جنگل میں پائے جانے والے بیشمار خار دار درختوں کے برابر بھی مال ہوتا تو میں سب کا سب تم لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتا اس وقت تم لوگوں کو تجربہ ہوجاتا کہ نہ میں بخیل ہوں کہ خرچ کرنا نہیں چاہتا، نہ یہ بات کہ اپنا مال بچانے اور محض ٹرخانے کے لئے جھوٹا سچا وعدہ کرکے سائلین سے اپنا پیچھا چھڑا لیا کرتا ہوں اور نہ یہ کہ میں چھوٹے دل کا آدمی ہوں اور اس خوف کی وجہ تمہیں کچھ دینا نہیں چاہتا کہ اگر تمہیں دے دیا تو میرے پاس کچھ نہیں رہ جائے گا اور خود مجھے فقروافلاس گھیر لے گا غرضیکہ بخل وکذب اور جبن جیسی بری خصلتیں میرے اندر نہیں پاسکتے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اس بات کی دلیل ہے کہ اعتماد اور بھروسہ پیدا کرنے کے لئے نہ جاننے والے کے سامنے اوصاف حمیدہ کے ذریعہ اپنی تعریف کرنا جائز ہے۔
Top