مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5724
عن أنس قال : خدمت النبي صلى الله عليه و سلم عشر سنين فما قال لي : أف ولا : لم صنعت ؟ ولا : ألا صنعت ؟ متفق عليه
بے مثال حسن خلق :
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں) مجھ کو آپ ﷺ نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (بخاری)

تشریح
مسلم کی روایت میں نوسال کے الفاظ۔ بہرحال آنحضرت ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر باختلاف روایت آٹھ سال یا دس سال کی تھی، ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے بعض اور رشتہ دار جو انصار میں سے تھے، ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائے اور خدمت مبارک میں دے دیا، چناچہ حضرت انس ؓ نے اس دن سے اس وقت تک کہ آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ ﷺ کی مسلسل خدمت کرتے رہے اور اس حدیث میں وہ آنحضرت کے ساتھ اس طویل خادمانہ تعلق کا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کسی کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا۔ الف کے پیش اور ف کی تشدید اور زیر کے ساتھ ہے ایک نسخہ میں یہ لفظ کے زبر کے ساتھ ایک نسخہ میں تنوین مکسورہ کے ساتھ ہے، یہ لفظ انسان کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب وہ کسی ناپسند یا تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ تم نے یہ کام کیوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ اس جملہ کے ذریعہ بھی حضرت انس ؓ نے آنحضرت ﷺ کے حسن سلوک اور کمال خلق کو بیان کیا کہ اس طویل زمانہ میں ایسا کبھی ہوا کہ میں نے از خود کوئی کام کیا ہو اور آنحضرت ﷺ نے یہ اعتراض فرمایا ہو کہ تم نے میری مرضی کے بغیر یہ کام کیوں کیا، یا آنحضرت ﷺ نے مجھ سے کسی کام کے لئے کہا ہو اور میں اس کام کو نہ کرسکا ہوں تو آپ ﷺ نے جواب طلب کیا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا لیکن واضح رہے کہ حضرت انس ؓ نے آنحضرت ﷺ کا یہ معاملہ اور سلوک دنیاوی امور یا ذاتی خدمت کے تعلق سے بیان کیا ہے نہ دینی معاملات و امور سے متعلق، کیونکہ کسی دینی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اعتراض پر چشم پوشی روا نہیں ہے۔ علامہ طیبی (رح) نے لکھا ہے کہ حدیث کے بین السطور سے خود حضرت انس ؓ کی خوبی ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہے کہ ایک طرح سے حضرت انس ؓ نے اپنی تعریف بھی بیان کی کہ میں نے ایسا موقع کبھی نہیں آنے دیا کہ آنحضرت ﷺ میرے کسی کام پر کوئی اعتراض ہوا ہو یا مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو لیکن یہ بات کہنا کچھ زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتا، حدیث کا جو سیاق وسباق ہے اور حضرت انس ؓ خلق نبوی کے متعلق جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کا اصل مفہوم وہی ہے جو پہلے ذکر ہوا۔
Top