مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان - حدیث نمبر 5700
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ألا تعجبون كيف يصرف الله عني شتم قريش ولعنهم ؟ يشتمون مذمما ويلعنون مذمما وأنا محمد . رواه البخاري
آنحضرت ﷺ اور کافروں کی گالیاں ،
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں محمد ہوں۔ (بخاری)

تشریح
مذمم معنی کے اعتبار سے محمد کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت و برائی کی گئی ہو یہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا، وہ بدبخت آنحضور ﷺ کو محمد کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ ﷺ کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ ﷺ پر لعن وطعن کیا کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کانشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔
Top