مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5684
وعن ابن عباس قال : جلس ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فخرج حتى إذا دنا منهم سمعهم يتذاكرون قال بعضهم : إن الله اتخذ إبراهيم خليلا وقال آخر : موسى كلمه الله تكليما وقال آخر : فعيسى كلمة الله وروحه . وقال آخر : آدم اصطفاه الله فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال : قد سمعت كلامكم وعجبكم إن إبراهيم خليل الله وهو كذلك وآدم اصطفاه الله وهو كذلك ألا وأنا حبيب الله ولا فخر وأنا حامل لواء الحمد يوم القيامة تحته آدم فمن دونه ولا فخر وأنا أول شافع وأول مشفع يوم القيامة ولا فخر وأنا أول من يحرك حلق الجنة فيفتح الله لي فيدخلنيها ومعي فقراء المؤمنين ولا فخر وأنا أكرم الأولين والآخرين على الله ولا فخر . رواه الترمذي والدارمي
آنحضرت ﷺ اللہ کے حبیب ہیں :
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے کچھ صحابی (مسجد نبوی میں) بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ اپنے حجرہ مبارکہ سے نکلے اور جب ان کے قریب پہنچے تو ان کی باتیں کان میں پڑیں آپ ﷺ نے ایک صحابی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل قرار دیا دوسرے صحابی نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شرف تکلم سے نوازا، ایک اور صحابی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں (یعنی وہ نظام قدرت کے مروجہ اسباب و ذرائع کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے شیرخواری کے زمانہ میں پالنے میں لوگوں سے باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے روح الامین کو ان کی ماں کے پاس بھیجا جس نے پھونک ماری اور اس کے نتیجہ میں ان کی پیدائش ہوئی، اس کے علاوہ ان کی روحانیت کے امور بہت سے آثار وکرشمے ظاہر ہوئے یہاں تک کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے) ایک صحابی نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا (یعنی انسان اول ہونے کے لئے انہیں کا انتخاب کیا ان کو تمام چیزوں کے نام سکھائے اور ان کے سامنے فرشتوں سے سجدہ کرایا) بہرحال (صحابہ اپنی باتوں کے دوران نبیوں کے خصوصی اوصاف تعجب کے ساتھ ذکر کر رہے تھے کہ) رسول کریم ﷺ ان کی مجلس تک پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں، تمہیں تعجب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل یعنی دوست ہیں تو بیشک ان کی یہی شان ہے ( تمہیں تعجب ہے کہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں تو بیشک ان کی بھی شان ہے، (تمہیں تعجب ہے کہ) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے برگزیدہ کیا، تو بیشک ایسا ہی ہے اور ان کی یہی شان ہے۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ میں اللہ کا حبیب ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا، سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں میں سب سے پہلا شخص میں ہی ہوں گا چناچہ اللہ تعالیٰ (فرشتوں کو حکم کے ذریعہ) جنت کا دروازہ میرے لئے کھول دے گا اور (سب سے پہلے) مجھے جنت میں داخل کرے گا اس وقت میرے ساتھ مؤمن فقراء ہوں گے اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا اور بلاشبہ تمام اگلے پچھلوں (خواہ وہ انبیاء ہوں یا دوسرے لوگ) سب ہی سے افضل واکرم ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (ترمذی)

تشریح
میں اللہ کا حبیب ہوں کے ضمن میں بعض شارحین نے تو یہ لکھا ہے کہ خلیل اور حبیب کے معنی دوست کے ہیں، لیکن حبیب اس دوست کو کہتے ہیں جو مجبوبیت کے مقام کو پہنچا ہوا ہو جب کہ خلیل مطلق دوست کو کہتے ہیں۔ اور ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ خلیل وہ دوست ہے جس کی دوستی کسی حاجت اور غرض کے تحت ہو جبکہ حبیب وہ دوست ہے جو اپنی دوستی میں بالکل بےلوث اور بےغرض ہو۔ واضح رہے کہ یوں تو تمام ہی انبیاء و رسول بلکہ تمام ہی اہل ایمان بارگاہ رب العزت کے دوست اور محبوب ہیں، لیکن دوستی اور محبوبیت کے بھی چونکہ مختلف درجات و مراتب ہوتے ہیں اس لئے یہاں گفتگو دوستی و محبوبیت کے اس درجہ و مرتبہ کے بارے میں ہے جو سب سے اعلی اور سب سے بہتر ہیں رہی یہ بات کہ بار گاہ رب العزت میں دوستی و محبوبیت کا سب سے بلندو برتر درجہ آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے، تو اس کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ) 3۔ ال عمران 31) (اے محمد) کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے دوستی رکھے گا۔ اس وقت میرے ساتھ مؤمن فقراء ہونگے، کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ داخل ہوں گے اور پھر اہل ایمان میں سے جو طبقہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا وہ مہاجر و انصار صحابہ میں سے وہ حضرات ہوں گے جو مفلس وبے مایہ تھے اور جو اپنے اپنے درجات و مراتب کے اعتبار سے آگے پیچھے جنت میں جائیں گے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت کے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صبر و استقامت کی راہ اختیار کرنے والا فقیر (بھکاری نہیں) شکر گذار غنی سے بہتر ہے اور صوفیاء کے نزدیک فاقہ و احتیاج کا نام فقر نہیں بلکہ ان کے ہاں صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے اور اللہ تعالیٰ سے بھی اس کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اور کچھ نہ مانگنے کا نام فقر ہے امام ثوری نے کہا ہے کہ فقر یہ ہے کہ مال و اسباب نہ ہونے پر تسکین خاطر حاصل ہو اور مال میسر ہو تو اس کو خرچ کیا جائے آنحضرت ﷺ نے نفس کے فقر سے پناہ مانگی ہے اور غنائے نفس کی تعریف فرمائی ہے حاصل یہ کہ اصل چیز اللہ تعالیٰ رضا و خوشنودی ہے جو بھی حالت، خواہ وہ فقر ہو یا غنا اس چیز کے حصول سے باز رکھے وہ بری ہے تاہم عام طور پر غنا یعنی دولت مندی کی حالت انسان کو برائیوں میں مبتلا کرتی ہے جب کہ فقر کی حالت بہت سی برائیوں میں مبتلا ہونے سے باز رکھتی ہے، اس لئے حق تعالیٰ نے زیادہ تر انبیاء اور اولیاء کو فقر کی حالت میں رکھا اور ان کا فقر، ان کے ان کے مراتب و درجات میں بلندی کا باعث بنا، ایک دلیل یہ ہے کہ جب فقیر کافر کو دوزخ میں غنی کافر سے ہلکا عذاب ہوگا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہی فقر مؤمن کو جنت میں فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
Top