مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5682
وعن العرباض بن سارية عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال : إني عند الله مكتوب : خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته وسأخبركم بأول أمري دعوة إبراهيم وبشارة عيسى ورؤيا أمي التي رأت حين وضعتني وقد خرج لها نور أضاء لها منه قصور الشام . وراه في شرح السنة
آنحضرت ﷺ اور ختم نبوت :
اور حضرت عرباض ابن ساریہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبین لکھا ہوا ہوں جب کہ آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہے اور میری ماں کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میری ماں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے ان پر شام کے محلات کو روشن کردیا تھا۔ اس روایت کو بغوینے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ نیز امام احمد نے بھی اس روایت کو ساخبرکم سے آخرتک ابوامامہ سے نقل کیا ہے

تشریح
وان ادم لمنجدل فی طینہ۔ میں لفظ طینہ کے معنی گوندھی ہوئی مٹی، کیچڑ اور گارے کے ہیں خلقت اور جبلت کو بھی طینت کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میرا خاتم النبیین کی حیثیت سے اس دنیا میں مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت لکھا جا چکا تھا جب آدم (علیہ السلام) آب وگل کے درمیان تھے اور نہ صرف یہ کہ ان کے پتلے میں جان نہیں پڑی تھی بلکہ ان کا پتلا بن کر تیار بھی نہیں ہوا تھا بن رہا تھا۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوجانے سے کیا مراد ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر الہٰی میں ہونا مراد ہے تو یہ بات تمام ہی انبیاء کے متعلق کہی جاسکتی ہے، آنحضرت ﷺ کی تخصیص کے کیا معنی اور اگر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا بالفعل ظاہر ہونا مراد ہے تو یہ خلاف واقعہ ہوگا، کیونکہ بالفعل کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیا میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کا کا اظہار حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش کے ہزاروں سال بعد ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت کا تمام فرشتوں اور روحوں میں ظاہر و متعارف کردیا جانا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ کے اسم شریف کا عرش، آسمان اور جنت کے محلات وبالاخانوں پر حورعین کے سینوں پر، جنت کے درختوں اور طوبی درخت کے پتوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں اور بھوؤں پر لکھا ہونا منقول ہے۔ اور بعض عارفین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک عالم ارواح میں تمام روحوں کی تربیت و اصلاح کرتی تھی جیسا کہ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ کی ذات گرامی اس دنیا میں اجسام انسانی کی مربی ومصلح ہوئی اور یہ بات کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہے کہ تمام روحیں اپنے اجسام سے بہت پہلے عالم وجود میں آچکی تھیں۔ میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے یہ واضح فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا نہ صرف یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود پذیر ہونے سے پہلے تجویز اور عالم بالا میں ظاہر ہوچکا تھا بلکہ اس دنیا میں بھی میری جسمانی پیدائش سے بہت پہلے مختلف انبیاء کے ذریعہ میری نبوت و رسالت اور میرے علو مرتبہ کا ظہور ہوچکا تھا اس کی دلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو انہوں نے میری رسالت کے متعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھی اور جس کو قرآن کریم میں اس طرح نقل کیا گیا ہے ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم ایتک ویعلمہم الکتب والحکمۃ ویزکیہم انک انت العزیزالحکیم۔ میرے پروردگار اور اس جماعت (اسمٰعیل کی اولاد) میں ان ہی کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کردیجئے جوان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاکیزہ کردیں بلاشبہ آپ ہی غالب القدرۃ اور کامل الانتظام ہیں۔ اسی طرح اس دنیا میں میری آمد سے کہیں پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے میری نبوت و رسالت کی خوشخبری دے دی تھی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔ اور (اے بنی اسرائیل) میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں اور جن کا نام احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔ نیز میری پیدائش سے پہلے میری والدہ محترمہ کا بشارت انگیز خواب دیکھنا اور میری پیدائش کے وقت ان کے ساتھ حیرت ناک واقعات و حالات کا پیش آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت و رسالت کانور، اس دنیا میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے ہی پر تو فگن ہوچکا تھا۔ حدیث کے اس جملہ جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کے تحت طیبی وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان الفاظ کی مراد خواب میں دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور حالت بیداری میں دیکھنا بھی، پہلی صورت میں پیدائش کے وقت سے کچھ پہلے عرصہ مراد ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خواب میں دیکھا ایک فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے کہ کہو میں اس بچہ کو (جو میرے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے یعنی آنحضرت ﷺ ہر حسد کرنے والے کے شر سے خدائے واحد کی پناہ میں دیتی ہوں حضرت آمنہ نے اس سے پہلے استقرار حمل کے وقت بھی خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ کیا تم جانتی ہو تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار نبی ہے۔ دوسری صورت میں بحالت بیداری دیکھنا مرادہو، کہا جائے گا کہ انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا۔ کا تعلق اس چیز کے دیکھنے سے ہے جس کا ذکر اس جملہ میں محذوف ہے، مگر آگے کی عبارت اس کی پوری وضاحت کرتی ہے اور بعض روایتوں میں بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ جس سے شام کے محلات تک روشن و نمایاں ہوگئے، اس کی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس وقت دنیا میں اس ہستی کا ظہور ہوا ہے جس کی نبوت و رسالت کی روشنی مشرق سے لے کر مغرب تک پوری روئے زمین کو منور کردے گی اور کفروضلالت کا اندھیرا ہلکا پڑجائے گا۔
Top