مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5674
وعن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها وأعطيت الكنزين : الأحمر والأبيض وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة عامة وأن لا يسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال : يا محمد إذا قضيت قضاء فإنه لا يرد وإني أعطيتك لأمتك أن لا أهلكهم بسنة عامة وأن لا أسلط عليهم عدوا سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم ولو اجتمع عليهم من بأقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا ويسبي بعضهم بعضا . رواه مسلم
امت محمدیہ ﷺ کہ تئیں خصوصی عنایات ربانی :
اور حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے روئے زمین کو سمیٹا (یعنی اس کو سمیٹ کر ایک ہتھیلی کے برابر کردیا اور پھر مجھے دکھایا) چناچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میری امت عنقریب روئے زمین کے تمام علاقوں کی بادشاہت سے سرفراز ہوگی، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھائے گئے ہیں اور میں یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کئے گئے ہیں۔ نیز میں نے اپنے پروردگار سے التجا کی کہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے (یعنی ایسا قحط نہ مسلط کرے جس میں مبتلا ہو کر پوری امت ہلاک ہوجائے) اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کسی (غیر مسلم دشمن کو مسلط نہ کرے جوان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے مرکز پر قبضہ کرلے۔ چناچہ میرے رب نے فرمایا اے محمد ﷺ جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے حق میں تمہیں اپنا یہ عہد و فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا جو ان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے ایک مرکز پر قبضہ کرلے اگرچہ ان (مسلمانوں) پر تمام روئے زمین کے غیر مسلم دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوں الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند کی صعوبت میں ڈالیں۔ (مسلم)

تشریح
سرخ اور سفید خزانوں، سے سونے اور چاندی کے خزانے مراد ہیں اور دونوں خزانوں کے ذریعہ کسری بادشاہ فارس اور قیصر بادشاہ روم کی سلطنت وممکت کی طرف اشارہ مقصود ہے، کیونکہ اس زمانہ میں فارس میں سونے کے اور روم میں چاندی کے ذخائر اور خزینے بہت زیادہ تھے، پس آپ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ میری امت کے لوگ جلد ہی وقت کی ان دونوں عظیم سلطنتوں پر قابض وحکمران ہوجائیں گے اور ان کے تمام خزانے اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگیں گے، چناچہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ الاّیہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں۔۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کا سیاق وسباق اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو دو چیزوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ومامون کردیا ہے، ایک یہ تو یہ کہ عام قحط وفاقہ کشی کی ایسی صورت حال کہ جو مجموعی طور پر تمام مسلمانوں کو ہلاک وفنا کردے کبھی پیش نہیں آئے گی، دوسرے یہ کہ اگر تمام روئے زمین کی اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں مل کر بھی یہ چاہیں مسلمانوں کی دینی واجتماعی ہئیت کے مرکز اور ان کی مجموعی طاقت کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان کے تمام علاقوں پر قبضہ کر بھی لیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ خود مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار پیدا ہوجائے، بھائی بھائی کا گلا کانٹے لگے، ایک مسلمانوں کی ملی ودینی اجماعیت اور ان کے سیاسی مرکز کو نقصان پہنچا دے یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہوچکا ہے، اس فیصلہ کو نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی اس کے خلاف کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
Top