مشکوٰۃ المصابیح - دوزخ اور دوزخیوں کا بیان - حدیث نمبر 5590
وعن النعمان بن بشير قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : أنذرتكم النار أنذرتكم النار فما زال يقولها حتى لو كان في مقامي هذا سمعه أهل السوق وحتى سقطت خميصة كانت عليه عند رجليه . رواه الدارمي
عذاب دوزخ سے آگاہی :
اور حضرت نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا (لوگو! ) میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا، میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا۔ آپ ﷺ یہ باربار فرما رہے تھے (اور ایک عجیب کیفیت کے عالم میں جھوم جھوم کر اتنی بلند آواز سے فرما رہے تھے کہ) اگر آپ اس جگہ تشریف فرما ہوتے جہاں اس وقت میں بیٹھا ہوں تو یقینا آپ ﷺ کی آواز بازار والے سنتے یہاں تک کہ اس وقت ( اس جھومنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی کالی کملی جو کاندھے پر پڑی تھی پیروں میں گر پڑی تھی۔

تشریح
میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا۔ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تم کو عذاب دوزخ کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی۔ اس عذاب کی شدت و سختی سے آگاہ کردیا کھول کھول کر یہ بیان کردیا کہ عقیدہ وعمل کا کونسا راستہ دوزخ کی طرف لیجاتا ہے اور کون سا راستہ اس سے بچاتا ہے اور میں نے کتنی ہی وہ مختلف صورتیں بتادی ہیں جن کو تم اپنی استطاعت و طاقت کے بقدر اختیار کرکے دوزخ کی آگ سے محفوظ رہ سکتے ہو، میں نے یہاں تک کہا ہے کہ اتقوا النارولو بشق تمرۃ۔ یعنی (صدقہ و خیرات دوزخ سے بچانے والے ہیں) اگر تم کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ و خیرات کرسکتے ہو تو وہی صدقہ و خیرات کرکے دوزخ کی آگ سے بچواب اگر اس کے بعد بھی تم میں سے کوئی شخص دوزخ کے عذاب سے نہیں ڈرتا اور ایسے راستے اختیار کرتا ہے جو اس کو سیدھا دوزخ میں لے جانے والے ہیں، تو وہ شخص جانے۔
Top