مشکوٰۃ المصابیح - دوزخ اور دوزخیوں کا بیان - حدیث نمبر 5575
وعنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : يقول الله لأهون أهل النار عذابا يوم القيامة : لو أن لك ما في الأرض من شيء أكنت تفتدي به ؟ فيقول : نعم . فيقول : أردت منك أهون من هذا وأنت في صلب آدم أن لا تشرك بي شيئا فأبيت إلا أن تشرك بي . متفق عليه
شرک کے خلاف انتباہ :
اور حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخیوں میں سے اس شخص سے جو سب سے ہلکے عذاب میں ہوگا فرمائے گا کہ اگر تیرے پاس روئے زمین کی چیزوں میں سے کوئی ایسی چیز ہوتی جس کا بدلہ میں دے سکتا اور اس کے عوض دوزخ کا عذاب سے خواہ وہ کتنا ہی ہلکا ہو چھٹکارا پاسکتا، تو کیا تو ایسا کرتا وہ دوزخی کہے گا کہ ہاں میں دنیا کی حاصل شدہ بڑی سے بڑی چیزبدلہ میں دے کر دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا پانا چاہوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بدنصیب انسان میں نے تو اسی وقت جب تو آدم کی پشت میں تھا، اس (بدلہ میں کوئی چیز دینے) سے بھی آسان وسہل چیز تیرے لئے طے کردی تھی اور وہ یہ کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا، مگر تو اس سے مکر گیا اور میرے احکام کی کوئی پابندی نہیں کی یہاں تک کہ بتوں وغیرہ کی پرستش و تعظیم کے ذریعہ میرا شریک ٹھہرا کر رہا، پس اب میں اس عذاب دوزخ کے بدلہ میں کوئی چیز قبول نہیں کروں گا خواہ تو دنیا کی تمام چیزیں ہی کیوں نہ لے آئے۔ ( بخاری و مسلم )

تشریح
لفظی ترجمہ کے اعتبار سے اس جگہ اردت منک الخ کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے تجھ سے اس سے بھی آسان وسہل چیز چاہی تھی اور مظہر نے لکھا ہے کہ یہاں ارادہ کا لفظ امر کے معنی میں ہے (یعنی چاہنے سے مراد حکم دینا ہے) نیز ارادہ اور امر میں فرق یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے سب اسی کے ارادے ومشیت سے ہوتا ہے جب کہ امر کا اطلاق کبھی اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو اس کے ارادہ ومشیت کے خلاف ہو طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ زیادہ درست یہ ہے کہ یہاں ارادہ کو میثاق یعنی عہد لینے پر محمول کیا جائے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا ہے واذا اخذربک من بنی ادم من ظہورہم ذریتہم الخ اور اس کا قرینہ خود حدیث قدسی کے یہ الفاظ وانت فی صلب ادم ہیں (مکر نے) کو عہد توڑنے محمول کیا جائے۔
Top