مشکوٰۃ المصابیح - دیدار الٰہی کا بیان - حدیث نمبر 5567
وعن الشعبي قال : لقي ابن عباس كعبا بعرفة فسأله عن شيء فكبر حتى جاوبته الجبال . فقال ابن عباس : إنا بنو هاشم . فقال كعب : إن الله قسم رؤيته وكلامه بين محمد وموسى فكلم موسى مرتين ورآه محمد مرتين . قال مسروق : فدخلت على عائشة فقلت : هل رأى محمد ربه ؟ فقالت : لقد تكلمت بشيء قف له شعري قلت : رويدا ثم قرأت ( لقد رأى من آيات ربه الكبرى ) فقالت : أين تذهب بك ؟ إنما هو جبريل . من أخبرك أن محمدا رأى ربه أو كتم شيئا مما أمر به أو يعلم الخمس التي قال الله تعالى : ( إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ) فقد أعظم الفرية ولكنه رأى جبريل لم يره في صورته إلا مرتين : مرة عند سدرة المنتهى ومرة في أجياد له ستمائة جناح قد سد الأفق رواه الترمذي وروى الشيخان مع زيادة واختلاف وفي روايتهما : قال : قلت لعائشة : فأين قوله ( ثم دنا فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى ) ؟ قالت : ذاك جبريل عليه السلام كان يأتيه في صورة الرجل وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد الأفق
کیا آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ؟
حضرت شعبی (رح) کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن میدان عرفات میں حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت کعب احبار سے ملاقات کی اور ان سے ایک سوال دریافت کیا کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے؟ ) حضرت کعب (نے اس سوال کو اتنا عجیب و غریب سمجھا کہ فرط حیرت سے انہوں) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ان کے اس زور دار نعرے کی باز گشت سے پہاڑ گونج اٹھے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہم ہاشم کی اولاد ہیں! حضرت کعب نے فرمایا کہ اچھا تمہارے سوال مقصد اب میری سمجھ میں آیا تو سنو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کیا (یعنی ایک کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور ایک کو اپنے دیدار کی سعادت عطاء فرمائی) چناچہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا۔ ایک مرتبہ تو وادی ایمن میں اور دوسری مرتبہ کوہ طور پر) اور محمد ﷺ نے شب معراج میں دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ حضرت مسروق (جو حدیث کے راوی ہیں اور جن سے حضرت شعبہ روایت نقل کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ (میدان عرفات میں حضرت کعب اور حضرت عباس کے درمیان ہونے والی اس بات چیت کو سن کر میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ (مسروق) تم نے ایسی بات پوچھی ہے جس سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں (یعنی میرا عتقاد یہ ہم کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک منزہ ہے کہ وہ کسی کو نظر آئے اس لئے میرے نزدیک دنیا میں اس کے دیدار کا واقع ہونا محال ہے اب تم نے یہ سوال پوچھا تو اس کی اس پاک ذات کی عظمت وخوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں نے عرض کیا کہ، ذرا توقف سے کام لیجئے (یعنی میرے اس سوال سے اتنا پریشان نہ ہوئے اور نہ اتنی جلد دیدار الہٰی کا انکار کیجئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا میری بات پوری طرح سن لیں، پھر میں نے دیدار الہٰی کے ثبوت میں یہ آیت پڑھی (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53۔ النجم 18) ( گویا حضرت مسروق نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاہر کیا کہ میرے نزدیک آیت میں بڑی نشانی سے مراد آنحضرت ﷺ بچشم سریا بچشم قلب وہ دیدار الہٰی حاصل ہونا ہے جو پروردگار کی عظمت شان یا آنحضرت ﷺ کی تعظیم و تکریم پر دلالت کرتا ہے) حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ (مسروق) یہ آیتیں تمہیں کہاں لے جارہی ہیں؟ (یعنی تم درست نہیں سمجھ رہے ہو، ان آیتوں کا مطلب آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی حاصل ہونا نہیں ہے بلکہ) بڑی نشانی سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں (جن کو آنحضرت نے ان کی اصل صورت میں دیکھا) جو شخص تم سے یہ کہ محمد ﷺ نے شب معراج میں اپنے پروردگار کو دیکھا ہے، یا یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپالیا ہے جن کے اظہار کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور یا یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ ان پانچ غیبی باتوں کا علم رکھتے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31۔ لقمان 34) میں ارشاد فرمایا ہے تو بلاشبہ اس نے محمد ﷺ پر بہت بڑا بہتان باندھا (جہان تک اس آیت کا تعلق ہے جو تم نے پڑھی ہے تو) اس کی مراد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں آپ ﷺ نے ایک مرتبہ تو سدرۃ المنتہی کے نزدیک (جیسا کہ اس آیت (وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى 14) 53۔ النجم 14-13) میں فرمایا گیا ہے) اور ایک مرتبہ (مکہ کے نواح) اجیاد میں اور آنحضرت ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں اس طرح دیکھا کہ) ان کے چھ سو بازو تھے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا اس روایت کو ترمذی نے (انہی الفاظ میں) اور بخاری ومسلم نے کچھ مزید اور مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے نیز بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا محمول و مصداق کیا ہے ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ حضرت عائشہ نے جواب دیا ان سب کی ضمیروں کا مرجع حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو عام طور پر آنحضرت ﷺ کے پاس کسی انسان کی شکل و صورت میں (وہ بھی اکثر وبیشتر ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں) آتے تھے اور اس مرتبہ (مکہ کے انواح اجیاد میں) اپنی اس صورت میں آئے تو جو ان کی اصل صورت ہے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا۔

تشریح
ہم ہاشم کی اولاد ہیں۔ یعنی ہم نہ صرف اس قبیلہ و خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ویسے بھی علم و فضیلت، عقل و فراست اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس خاندان کے بارگاہ نبوت سے نسبت و قرابت رکھنے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں علوم وانوار سے اکتساب کرنے کے مواقع ہمیں زیادہ بہتر طریقہ پر میسر ہوا ہے اور اس سب سے بڑی خاندانی نسبت و امتیاز کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم و معرفت سے سرفراز فرمایا ہے لہذا مجھ سے یہ توقع نہ رکھئیے کہ میں کوئی ایسا سوال کروں گا جو علم وعقل سے بعید ہو، میں نے جو کچھ پوچھا ہے اس گہرائی میں پہنچنے کی کوشش کیجئے اور میرے سوال پر حیرت و غصہ کرنے کے بجائے غور وفکر کرکے جواب دیجئے کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار فی الجملہ ممکن ہے دراصل جب حضرت ابن عباس ؓ نے مذکورہ سوال کیا تو حضرت کعب ؓ یہ سمجھے کہ ابن عباس ؓ دنیا میں مطلق دیدار الہٰی کے بارے میں ذرا زور دار الفاظ کا اظہار کیا تو حضرت کعب احبار ؓ کو ان کے سوال میں غور وفکر کرنا پڑا اور تب وہ ان کی مراد سمجھے کہ ان کے سوال میں مطلق دیدار الہٰی مراد نہیں ہے بلکہ فی الجملہ دیدار الہٰی مراد ہے اس کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ صرف آنحضرت ﷺ کے لئے دیدار الہٰی ممکن ہے جو آپ ﷺ کو شب معراج میں حاصل ہوا۔ یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپالیا ہے۔۔۔۔۔ الخ۔ میں ان چیزوں سے مراد احکام وشرائع ہیں جن کا لوگوں تک پہنچانا آنحضرت ﷺ کے لئے ضروری قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ( یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ) اے پیغمبر ﷺ جو کچھ احکام وشرائع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں تک پہنچا دیجئے اور اگر ایسا نہ کیا تو آپ ﷺ اللہ کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ اور چھپانے کا مفہوم عام ہے کہ خواہ تمام احکام وشرائع کو چھپانے کے بارے میں کہا جائے یا ان احکام وشرائع میں سے کچھ کو اس سے شیعہ لوگوں کی اس گمراہ کن بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ کچھ احکام وشرائع ایسے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے اپنے اہل بیعت کے لئے مخصوص رکھا ہے، ان کا دائرہ پوری امت تک وسیع نہیں کیا۔ تو پھر اللہ کے اس ارشاد کا محمول و مصداق کیا ہے کے ذریعہ حضرت مسروق نے سورت نجم کی ان تمام آیات کی طرف اشارہ کیا جن کے بارے میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مفسرین کے اختلافی اقوال کا ذکر پیچھے بھی کیا جا چکا ہے وہ آیتیں یہ ہیں۔ (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى۔ فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَا اَوْحٰى 10 مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11) 53۔ النجم 8 تا 11) وہ آپ ﷺ کے نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا تو دونوں کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم پھر خدا نے اپنے بندے پر وحی نازل فرمائی جو کچھ کہ نازل فرمائی تھی جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا۔ پس بظاہر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ دنی کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اسی طرح تدلی اور فکان قاب قوسین میں کان کی ضمیریں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہیں جس کا ایک ظاہری قرینہ فاوحی کی ضمیر ہے کہ اس کا مرجع یقینی طور پر اللہ تعالیٰ ہے اس بنیاد پر حضرت مسروق نے اشکال ظاہر کیا کہ اگر شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی حاصل نہیں ہوا تھا تو ان آیتوں کے کیا معنی ہوں گے؟ اس اشکال کا جواب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ دیا کہ ان افعال کی ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے ہی نہیں بلکہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ ان آیتوں سے آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ثابت ہوتا ہے غیر درست نتیجہ اخذ کرنا ہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کان یاتیہ فی صورۃ الرجل الخ کے ذریعہ ایک اور اشکال کا جواب دیا کہ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو تو آنحضرت ﷺ برابر دیکھا ہی کرتے تھے پھر شب معراج میں ان کو دیکھنے کو اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو حضرت عائشہ نے گویا کہ اس اشکال کے دفیعہ کے لئے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) عام طور پر آنحضرت ﷺ کے پاس انسانی شکل و صورت آیا کرتے تھے وہ آپ ﷺ کے سامنے اپنی اصل صورت کے ساتھ صرف دو مرتبہ آئے ہیں ایک دفعہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں جب آنحضرت ﷺ نے ان کو اس طرح دیکھا تھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور پورا افق ان سے مامور تھا اور پھر اسی اصل صورت وہیبت کے ساتھ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس آپ ﷺ کو نظر آئے تھے۔ حاصل یہ کہ حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت کعب احبار ؓ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے اس کو اختیار کیا کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا ہے بایں احتمال کہ دونوں مرتبہ بصر (سر کی آنکھوں) سے دیکھا ہو یا بصیرت (دل کی آنکھوں) سے یا یہ کہ ایک مرتبہ تو بچشم سر دیکھا ہو اور ایک مرتبہ بچشم قلب اگرچہ اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دو مرتبہ نہیں دیکھا ہے۔ ایک اور حضرت عائشہ اس سے انکار کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو ان کے اس انکار کو مطلق انکار پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے اور مقید انکار پر بھی مطلق انکار کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ سرے سے آنحضرت ﷺ کے دیدار الہٰی کے منکر ہیں خواہ بچشم قلب دیکھنا مراد لیا جائے یا بچشم سر اور مقید انکار کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچشم سر دیکھنے کی منکر ہیں، بچشم قلب دیکھنے کی نہیں لیکن حضرت عائشہ کے اس ارشاد کو دیکھتے ہوئے زیادہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انکار کو مطلق انکار پر محمول کیا جائے۔ اور حافظ ابن حجر یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے اثبات اور حضرت عائشہ کے انکار کے درمیان جو تضاد ہے اس کو دور کرنے کے لئے یہ تاویل کی جانی چاہے کہ حضرت عائشہ کا انکار بچشم سر دیکھنے پر اور حضرت ابن عباس کا اثبات بچشم قلب دیکھنے پر محمول ہے، لیکن بچشم قلب دیکھنے کا مطلب مجرد علم نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم وعرفان تو حضور کو ہر وقت ہی حاصل رہتا تھا، اس کو شب معراج کے ساتھ مخصوص کرکے بیان کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے، لہٰذا بچشم قلب دیکھنے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ اس خاص موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے قلب میں وہ بنیائی پیدا فرمادی تھی جو آنکھوں میں ہوتی ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ نے قلب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا وہ دیدار حاصل کیا جو کوئی شخص آنکھوں کے ذریعہ دوسری چیزوں کا حاصل کرتا ہے۔
Top