مشکوٰۃ المصابیح - دیدار الٰہی کا بیان - حدیث نمبر 5566
وعن ابن عباس : ( ما كذب الفؤاد ما رأى . . . . ولقد رآه نزلة أخرى ) قال : رآه بفؤاده مرتين . رواه مسلم وفي رواية للترمذي قال : رأى محمد ربه . قال عكرمة قلت : أليس الله يقول : ( لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار ) ؟ قال : ويحك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقد رأى ربه مرتين
آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی سے متعلق ایک آیت کی تفسیر
اور حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 اَفَتُمٰرُوْنَه عَلٰي مَا يَرٰى 12 وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13) 53۔ النجم 13-12-11) (ترجمہ اور محمد ﷺ کے دل نے محمد ﷺ سے غلط نہیں کہا اس چیز کی بابت جو انہوں نے آنکھوں سے دیکھی یعنی ذات اقدس تعالیٰ کو اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پروردگار کو ایک مرتبہ اور دیکھا کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے پروردگار کو دل کی آنکھوں سے ہر مرتبہ دیکھا۔ (مسلم) اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے (مذکورہ آیت کی تفسیر میں) کہا محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ (میں نے یہ سن کر اپنا اشکال ظاہر کیا اور) حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ (قرآن کریم میں اپنی ذات کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ لاتدر کہ الابصار وہو یدرک الابصار (پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ ) حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت عکرمہ ؓ کے اس اشکال کے جواب میں) کہا کہ تم پر افسوس ہے (کہ تم بات نہیں سمجھ سکے، حقیقت یہ کہ) یہ (مفہوم جو تم نے اس آیت کے ذریعہ پیش کیا ہے) اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے اور اپنے اس نور کے ساتھ ظاہر ہو جو اس کی ذات خاص کا نور ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے آپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔

تشریح
اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ سے جن آیتوں کی تفسیر و وضاحت منقول ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں سے ہیں اور مفسریں کے ہاں ان آیتوں کے بارے میں خاص اختلاف ہے کہ ان کا مدلول ومحمول کیا ہے۔ صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین میں سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سورت نجم کی ان آیتوں میں درحقیقت اس بات کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں اور دوسری شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس۔ اس کے برخلاف صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین کی دوسری جماعت کا، جن میں حضرت ابن عباس کا نام نامی سرفہرست ہے، یہ کہنا ہم کہ ان آیات میں واقعہ معراج کا بیان اور آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے پروردگار کو دل سے دو مرتبہ دیکھا۔ یعنی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے قلب میں میں بینائی کی بھی وہ طاقت ودیعت فرمائی جو آنکھ میں ہوتی ہے اور آپ ﷺ کی آنکھوں کو ادراک کی بھی وہ طاقت عطا فرمائی جو قلب میں ہوتی ہے، پس یہ کہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے پروردگار کو بچشم قلب دیکھا یا یہ کہ بچشم سر دیکھا، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یہ مطلب اس لئے اختیار کیا گیا، تاکہ جو حضرات جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ) یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں پروردگار کو بچشم سر دیکھا ہے اور حضرات یہ کہتے ہیں کہ بچشم قلب دیکھا ہے، ان دونوں کے اقوال کی رعایت ہوجائے جیسا کہ اوپر اجمالا ذکر کیا گیا پہلے اختلاف تو یہی ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں آنحضرت ﷺ کے کس کو دیکھنے کا ذکر ہے حق تعالیٰ کو یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو؟ حضرت ابن عباس ؓ حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد لیتے ہیں جمہور صحابہ ان کی تائید میں ہیں اور سلف میں جمہور مفسرین بھی اسی طرف گئے ہیں ان کے نزدیک دنی فتدلی قاب قوسین اوادنی کے الفاظ ( جوان آیات میں آئے ہیں) معراج کے موقعہ پر بارگاہ ربوبیت میں آنحضرت ﷺ کے قرب اور پروردگار کے مشاہدہ و زیارت کا بیان ہیں۔ پھر اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھا ہے یا بچشم قلب؟ بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ نے سر ہی کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھا، امام نووی کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کے نزدیک ترجیحی قول یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ جو حضرات آیات مذکورہ میں آنحضرت ﷺ کا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا مراد لیتے ہیں ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اس قرب و مشاہدہ کا بیان وذکر ہے جو آنحضرت ﷺ کو جبرائیل امین کی اصل صورت کے ساتھ شب معراج میں اور اس سے پہلے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں حاصل ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے الخ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی مشیت وقدرت پر منحصر ہے اگر اس کی ذات خاص کی تجلی ظاہر ہو تو اس میں شبہ نہیں کہ کسی کی بھی نگاہ وبصر کی توانائی برداشت کرسکتی ہو تو یقینا نگاہ اس کی طرف اٹھ سکتی ہے اور آنکھیں دیدار اور زیارت کی تاب لاسکتی ہیں رہی اس آیت کی بات جس کا حوالہ حضرت عکرمہ نے دیا تو اس کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ادراک کا ذکر ہے جس کے لغوی معنی کسی چیز کا اس کے تمام اطراف و جوانب اور تمام سرحدوں کے ساتھ احاطہ کرنا ہیں اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے لئے نہ کوئی حد و نہایت ہے اور نہ اس کے اطراف وجانب ہیں، اس کی ذات ان چیزوں سے ماوراء اور لامحدود ہے، اس معنی میں کوئی بھی نگاہ وبصر اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا اس آیت میں احاطہ کی نفی مراد ہے مطلق دیدار کی نفی مراد نہیں ہے جس سے یہ اشکال واقع ہو کہ آپ ﷺ کے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی بات اس آیت کے خلاف پڑتی ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت نے اپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔ میں دو مرتبہ کی وضاحت بعض محدثین نے یہ کی ہے کہ ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے قریب اور ایک مرتبہ عرش پر اور ملا علی قاری نے اس جملہ کے تحت یہ لکھا ہے کہ دو مرتبہ دیکھا سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے دونوں مرتبہ دل کی آنکھوں سے دیکھا اور ایک مرتبہ سر کی آنکھوں سے یہ اختلاف مطالب اس لئے ہے کہ کسی بھی روایت میں وضاحت کے ساتھ منقول نہیں ہے (جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں، کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دو بار دیکھا۔
Top