مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5497
وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يخلص المؤمنون من النار فيحبسون على قنطرة بين الجنة والنار فيقتص لبعضهم من بعض مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا هذبوا ونقوا أذن لهم في دخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم أهدى بمنزله في الجنة منه بمنزله كان له في الدنيا . رواه البخاري
اہل ایمان کو عذاب میں مبتلا کرنے کی اصل وجہ
اور حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا! جب اہل ایمان کو دوزخ سے چھٹکارا ملے گا تو ان کو ( جنت میں پہنچانے سے پہلے) اس پل پر روک لیا جائے گا جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا اور پھر ان سے ایک دوسرے کو ان حقوق ومطالبات کا بدلہ دلوایا جائے گا جو دنیا میں وہ ایک دوسرے پر رکھتے تھے ( یعنی جو بھی شخص دنیا میں اپنے ذمے کسی کا حق رکھتا ہو اور اس کو ادا کرنے سے پہلے مرگیا ہوگا تو اس موقع پر اس سے وہ حق، حقدار کو دلوایا جائے گا) یہاں تک کہ جب وہ لوگ ( ہر طرح کے گناہ اور برائیوں کی آلائش سے) بالکل پاک وصاف ہوجائیں گے تو ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیدی جائے گی۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے ( جب وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ( ان میں سے ہر شخص اپنے اس مکان کو، جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہوگا اپنے دنیا کے مکان سے زیادہ پہنچاننے والا ہوگا۔ (بخاری)

تشریح
جب وہ لوگ بالکل پاک وصاف ہوجائیں گے۔۔ الخ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار اہل ایمان کو دوزخ کے سپرد کرنا اور عذاب میں مبتلا کرنا ان کو پاک وصاف کرنے کے لئے ہوگا تاکہ وہ پوری طرح کندن ہو کر جنت میں، کہ جو ان کے ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے، داخل ہوں، نہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کو کسی نفرت و عداوت اور قہر وغضب کے تحت دوزخ کی آگ میں جھونکے گا! اور اس کا یہی حکم اس دنیا میں بھی کار فرما ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بیماریوں حادثوں اور مختلف تکالیف و مصائب میں مبتلا کر کے ان کے گناہوں کو دھوتا رہتا ہے۔ اہل تحقیق نے کہا ہے کہ مختلف اوقات میں بندوں سے جو گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ان میں بعض گناہ تو حق کی خاطر برداشت کی جانے والی مشتوں اور مختلف مصائب وآفات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دھل جاتے ہیں، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جن کو سکرات الموت کی شدت و سختی پاک و صاف کردیتی ہے، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو عذاب قبر سے ختم ہوجاتے ہیں اور بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو دوزخ کی آگ کے علاوہ کسی اور چیز سے صاف نہیں ہوں گے جیسا کہ سونے اور چاندی کو بھٹی میں ڈال کر پگھلائے بغیر کندن نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ہر شخص اپنے مکان کو۔۔ الخ۔ سے قلب کی اس قوت و نورانیت اور ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے، نیز اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب ان لوگوں ( یعنی اہل ایمان) نے دنیا میں نور توفیق اور نور قلب کی روشنی میں ایمان، عمل صالح اور تعلق مع اللہ کے راستہ کو پالیا تھا اور ہدایت یافتہ ہوگئے تھے تو آخرت میں بھی جنت کے اندر اپنی منزل اور اپنے مقام کا راستہ آسانی کے ساتھ پالیں گے۔
Top