مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5491
وعن أبي سعيد الخدري أن أناسا قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نعم هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر صحوا ليس فيها سحاب ؟ قالوا : لا يا رسول الله قال : ما تضارون في رؤية الله يوم القيامة إلا كما تضارون في رؤية أحدهما إذا كان يوم القيامة أذن مؤذن ليتبع كل أمة ما كانت تعبد فلا يبقى أحد كان يعبد غيرالله من الأصنام والأنصاب إلا يتساقطون في النار حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر وفاجر أتاهم رب العالمين قال : فماذا تنظرون ؟ يتبع كل أمة ما كانت تعبد . قالوا : ياربنا فارقنا الناس في الدنيا أفقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم (3/212) 5579 - [ 14 ] ( متفق عليه ) وفي رواية أبي هريرة فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه وفي رواية أبي هريرة فيقولون : هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه وفي رواية أبي سعيد : فيقول هل بينكم وبينه آية تعرفونه ؟ فيقولون : نعم فيكشف عن ساق فلا يبقى من كان يسجد لله من تلقاء نفسه إلا أذن الله له بالسجود ولا يبقى من كان يسجد اتقاء ورياء إلا جعل الله ظهره طبقة واحدة كلما أراد أن يسجد خر على قفاه ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم حتى إذا خلص المؤمنون من النار فوالذي نفسي بيده ما من أحد منكم بأشد مناشدة في الحق - قد تبين لكم - من المؤمنين لله يوم القيامة لإخوانهم الذين في النار يقولون ربنا كانوا يصومون معنا ويصلون ويحجون فيقال لهم : أخرجوا من عرفتم فتحرم صورهم على النار فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا ما بقى فيها أحد ممن أمرتنا به . فيقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دنيار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقول : ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من خير فأخرجوه فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون : ربنا لم نذر فيها خيرا فيقول الله شفعت الملائكة وشفع النبيون وشفع المؤمنون ولم يبق إلا أرحم الراحمين فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوما لم يعملوا خيرا قط قد عادوا حمما فيلقيهم في نهر في أفواه الجنة يقال له : نهر الحياة فيخرجون كما تخرج الحبة في حميل السيل فيخرجون كاللؤلؤ في رقابهم الخواتم فيقول أهل الجنة : هؤلاء عتقاء الرحمن أدخلهم الجنة بغير عمل ولا خير قدموه فيقال لهم لكم ما رأيتم ومثله معه . متفق عليه
قیامت کے دن شفاعت وغیرہ سے متعلق کچھ اور باتیں
اور حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے روایت ہے کہ ( ایک دن مجلس نبوی ﷺ میں) کچھ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں دیکھو گے۔ ( پھر آپ ﷺ نے دیدار الہٰی کے ثبوت کو واضح کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا کہ) کیا تم لوگ دوپہر کے وقت جب کہ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ ہو، سورج کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں یا رسول اللہ ﷺ! فرمایا تو پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس نہیں کروگے، ہاں جیسا کہ تم ان دونوں ( یعنی سورج و چاند) میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو۔ ( اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) جب قیامت کا دن برپا ہوگا ( اور تمام مخلوق میدان محشر میں جمع ہوگی، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ جو طبقہ ( دنیا میں) جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے رہے، چناچہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا اور سب کے سب دوزخ میں جا گریں گے۔ کیونکہ انصاب اور بت کہ جن کی پوجا ہوتی تھی، دوزخ میں پھینکے جائیں گے، لہٰذا ان کے ساتھ ان کی پوجا کرنے والے بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے) یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا کوئی موجود نہیں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے وہ خواہ نیک ہوں یا بد، تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کے منتظر ہو؟ ہر طبقہ اس چیز کے پیچھے پیچھے چلا جارہا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا ( تو تم پھر یہاں کیوں کھڑے ہو، تم بھی کیوں نہیں چلے جاتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار! ہم نے دنیا میں ان لوگوں سے کہ جو دنیا میں غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اب اپنے معبودوں کے پیچھے پیچھے دوزخ میں چلے جائیں گے) پوری طرح جدائی اختیار کر رکھی تھی حالانکہ ہم ( اپنی دنیاوی ضرورتوں میں) ان لوگوں ( کی مددواعانت) کے ضرورت مند تھے لیکن ہم نے کبھی ان کی صحبت وہمنشینی کو گوارا نہیں کیا ( اور نہ کبھی ان کی اتباع کی بلکہ ہمیشہ ان کے مدمقابل رہے اور صرف تیری رضا کی خاطر ان سے جنگ وجدال کرتے رہے، پس اب جب کہ ہم ان کے کسی طرح سے ضرورت مند بھی نہیں ہیں اور ان سب کی منزل بھی دوزخ ہے، تو ہم ان کے ساتھ کیسے چلے جاتے) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں یہاں یوں نقل کیا گیا ہے کہ وہ لوگ ( جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ کہیں گے کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہمارا پروردگار ہمارے پاس نہیں آئے گا یعنی جب تک وہ ہم پر اس طرح سے تجلی نہ فرمائے جس کے سبب ہم اس کو پہچان لیں کہ یہی ہمارا پروردگار ہے اور جب ہمارا پروردگار ( اپنی تجلی وصفات کے اظہار کی صورت میں کہ جس کے سبب ہم اس کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں) ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کو ( اچھی طرح) پہچان لیں گے اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پروردگار کے درمیان نشانی ہے جس کے ذریعے تم اس کو پہچان لوگے؟ وہ کہیں گے کہ ہاں نشانی ہے تب اللہ کی پنڈلی کھولی جائے گی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سجدہ کی اجازت و توفیق عطا فرمائے گا جو ( دنیا میں کسی کو دکھانے سنانے اور کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کے تقاضے یعنی اخلاص وعقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اور ہر وہ شخص کہ ( جو دنیا میں) کسی خوف سے یا لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو ایک پورا تختہ بنا دے گا ( یعنی اس کو پیٹھ وکمر کی ہڈیوں کے جوڑ بالکل ختم کر دئیے جائیں گے اور اس کی پوری پیٹھ ایک تختہ بن جائے گی تاکہ وہ جھک نہ سکے اور نہ سجدہ کرسکے) چناچہ وہ سجدہ میں جانے کے لئے جھکنا چاہے گا تو چت گرپڑے گا پھر دوزخ کے اوپر ( اس کے بیچوں بیچ) پل صراط کو رکھا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عطا کی جائے گی، چناچہ تمام انبیاء (علیہم السلام) ( اپنی اپنی امتوں کے حق میں طلب استقامت و سلامتی کے لئے) یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ! ان کو پل صراط کے اوپر سے) سلامتی سے گزار دے، ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ۔ پس مسلمان لوگ ( پل صراط کے اوپر سے اس طرح) سے گزریں گے کہ بعض تو پل جھپکتے ہی گزر جائیں گے، بعض کو ندے کی طرح نکل جائیں گے، بعض ہوا کے جھونکے کی مانند بعض پرندوں کی اڑان کی مانند، گزریں گے پس ان میں سے کچھ مسلمان تو وہ ہونگے جو دوزخ کی آگ سے بالکل سلامتی اور نجات پائے ہونگے ( یعنی پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا) اور کچھ مسلمان وہ ہونگے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور ( دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے، تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر ثابت شدہ حق کے حصول میں اتنی شدید جدوجہد اور سختی نہیں کرتا جتنی شدید جدوجہد مؤمن قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کریں گے جو دوزخ میں ہوں گے وہ مؤمن کہیں گے کہ ہمارے پروردگار! یہ لوگ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے ( یعنی ان کی نماز ہماری نمازوں کی طرح ہوتی تھی اور ان کا حج ہمارے ہی حج کی طریقہ سے ہوتا تھا پس تو ان کو بھی دوزخ سے نجات دیدے ) ان سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور جن لوگوں کو تم ( اپنی مذکورہ شہادت کی روشنی میں) پہچانتے ہو انہیں ( دوزخ) سے نکال لو، پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کردیا جائے گا۔ چناچہ وہ مؤمن بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر کہیں گا کہ ہمارے پروردگار! جن لوگوں کو تو نے ( دوزخ) سے نکالنے کا حکم دیا تھا ( یعنی اہل نماز، اہل زکوٰۃ اور اہل حج وغیرہ) ان میں سے اب دوزخ میں کوئی باقی نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا پھر جاؤ اور ہر اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم دینار برابر بھی نیکی پاؤ پس وہ مؤمن ( جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اور اب ہر شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں آدھے دینار برابر بھی نیکی پاؤ، پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جاؤ اور اب اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم از قسم نیکی ذرہ برابر بھی کوئی چیز پاؤ پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار! ہم نے دوزخ میں بھلائی کو باقی نہیں رہنے دیا ہے ( یعنی دوزخ میں اب ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچا ہے جس کے دل میں اصل ایمان کے علاوہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی اور ذرہ برابر بھی بلکہ ذرہ سے کمتر کوئی نیکی ہو خواہ اس نیکی کا تعلق اعمال سے ہو یا افعال قلب سے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فرشتوں نے شفاعت کرلی اور پیغمبروں نے بھی شفاعت کرلی) اور مؤمنوں نے بھی شفاعت کرلی) اور ان سب کے شفاعت کا تعلق ان لوگوں سے تھا جن کا نامہ اعمال میں کوئی نہ کوئی نیکی ضرور تھی خواہ وہ نیکی ذرہ کے برابر یا اس سے کمتر درجہ ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح، اب کوئی ایسی کوئی ذات باقی نہیں رہ گئی ہے ( جو خود بھلائی پہنچانے یا بھلائی پہنچانے والے سے سفارش و شفاعت کے ذریعہ کسی کے ساتھ رحم ومروت اور عنایت وہمدردری کا معاملہ کرے لیکن ابھی ارحم الراحمین کی ذات باقی ہے ( جس کی رحمت جس کا کرم اور جس کی عنایت ہر ایک پر سایہ فگن ہے اور اس کی رحمت و عنایت کے اثرات کے مقابلہ ہر ایک کی رحمت و عنایت ہیچ ہے اور ( یہ فرما کر) اللہ تعالیٰ دوزخ میں سے اپنی مٹھی بھر کر ( ان) لوگوں کو نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی ( چھوٹی یا بڑی) نیکی کی ہی نہیں ہوگی، یہ لوگ دوزخ میں ( جلتے رہنے کی وجہ سے) کوئلہ بن چکے ہوں گے، چناچہ ان کو اس نہر میں ڈالے گا جو جنت کے دروازوں کے سامنے ہے اور جس کو نہر حیات کہا جائے گا اور پھر یہ لوگ اس نہر سے اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کے کوڑے کچرے میں اگتا ہے ( یعنی جس طرح سیلابی کوڑے کچرے میں پڑا ہوا دانہ بہت جلد اگ آتا ہے اور خوب ہرا بھرا معلوم ہوتا ہے، اس طرح یہ لوگ بھی اس نہر میں غوطہ دلائے جانے کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ بہتر جسمانی حالت میں واپس آجائیں گے اور خوب تروتازہ اور توانا معلوم ہوں گے) نیز یہ لوگ ( اس نہر سے) موتی کی مانند پاک و شفاف باہر آئیں گے ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی چناچہ ( جب اہل جنت ان لوگوں کو ( ان کی امتیازی علامتوں کے ساتھ) دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہ ( خوش نصیب) لوگ ہیں جو خدائے رحمان کے آزاد کئے ہوئے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے ( اپنے خاص فضل و کرم کے تحت، اس امر کے باوجود جنت میں داخل کیا ہے کہ انہوں نے ( دنیا میں) کوئی نیک عمل کیا تھا اور نہ انہوں نے (کم سے کم افعال قلب ہی کی صورت میں، کوئی نیکی کرکے آگے بھیجی تھی اور پھر ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ان نو آزاد لوگوں سے کہا جائے گا کہ) بلکہ جنت میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو ( یعنی تمہاری حد نظر تک تمہیں جو اعلی سے اعلی نعمتیں نظر آرہی ہے) نہ صرف یہ بلکہ ان ہی جیسی اور بہت سی نعمتیں بھی، سب تمہارے لئے ہیں۔ ( بخاری)

تشریح
ہاں دیکھوگے۔ سیوطی نے اپنی تالیفات میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن موقف میں ( میدان حشر میں کہ جہاں ساری مخلوق کھڑی ہوگی) مرد و عورت ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا، جہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ کو تو دیدار منافقوں اور کافروں کو بھی نصیب حاصل ہوگا، لیکن پھر فورا ہی ان کو محجوب کردیا جائے گا تاکہ وہ ہمیشہ اس دیدار کی حسرت اور اپنی محرومی کے غم میں مبتلا رہیں تاہم منافقوں اور کا قروں کو دیدار حاصل ہونے کی یہ بات زیادہ واضح نہیں ہے، بلکہ اس میں کلام ہے کیونکہ قرآن کریم میں یہ آیا ہے کہ (کلا انہم عن ربہم یومئذ لمحجوبون) ( یعنی ہرگز نہیں، یقینا کفار اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے) اور جہاں تک جنت میں حق تعالیٰ کے دیدار کا سوال ہے تو اس بارے میں علامہ سیوطی (رح) نے کہا ہے کہ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہاں حق تعالیٰ کا دیدار ہر امت کے نبیوں، رسولوں، صدیقوں اور اس امت محمدی کے افراد میں سے تمام مؤمن مردوں کو حاصل ہوا کرے گا، امت محمدی کی عورتوں کے سلسلے میں تین قول ہیں، ایک تو یہ کہ ان کو وہاں دیدار نصیب نہیں ہوگا، دوسرا یہ کہ ان کو بھی دیدار نصیب ہوا کرے گا مگر تمام دنوں میں نہیں بلکہ چند مخصوص دنوں مثلا عید وغیرہ کے دنوں میں فرشتوں کے بارے میں بھی دو قول ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو نہیں دیکھیں گے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ بھی اپنے رب کا دیدار کیا کریں گے، اسی طرح جنات کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں۔ کیا تم لوگ دوپہر کے وقت۔۔ الخ۔ اس سوال کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو چیز عام طور پر مشکل سے نظر آتی ہے اور لوگ اس کے دیدار کے تمنائی ہوتے ہیں، اس کو دیکھتے ہیں دھکاپیل اور مشقت وضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جس طرح آفتاب وماہتاب کو دیکھنے میں کسی قم کی مشقت وضرر اور تکلیف رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت کسی طرح کی دھکاپیل اور مشقت وضرر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہاں جیسا کہ تم ان دونوں میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو۔ یہ جملہ دراصل تعلق بالمحال کے طور پر پچھلے جملہ کو زیادہ سے زیادہ ( زور دار) بنانے کے لئے ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم سورج و چاند کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو تو یقینًا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی رکاوٹ تکلیف محسوس کرو گے، لیکن جب یہ بات طے ہے کہ ان دونوں ( سورج و چاند) میں سے کسی کو بھی دیکھنے میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ رکاوٹ و تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تو جان لو کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی ادنیٰ سی وکاوٹ و تکلیف پیش نہیں آئے گی! ضمنی طور پر یہ بات ذکر کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہاں جس دیدار الہٰی کے بارے میں ذکر ہے وہ اس دیدار الہٰی کے علاوہ ہے جو جنت میں اہل ایمان کو بطور اعزاز واجر نصیب ہوگا، یہ دیدار تو محض امتحان و آزمائش کے طور پر ہوگا تاکہ دنیا میں جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی اور جن لوگوں نے غیر اللہ کو اپنا معبود بنایا، ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان فرق و امتیاز ہوجائے اس سے معلوم ہوا کہ آخرت میں بھی بندوں کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب و کتاب کے بعد ہر ایک کے حق میں آخری فیصلہ نہ ہوجائے گا کہ کون اجر وجزا کا سزا وار ہے اور کون عذاب کا مستوجب! پس آخرت اگرچہ دار جزا ( بدلہ کا گھر) لیکن کبھی کبھی وہاں امتحان و آزمائش کا مرحلہ بھی پیش آئے گا جس طرح کہ یہ دنیا اگرچہ امتحان و آزمائش کا گھر ہے لیکن یہاں کبھی کبھی اجروبدلہ بھی مرتب ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ آیت (وَمَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ) 42۔ الشوری 30) اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہیں وہ دراصل تمہارے اعمال ہوتے ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے۔ میں انصاب دراصل نصب کی جمع ہے اور نصب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی خاص جگہ پر خاص اس مقصد کے لئے گاڑا اور نصب کیا جائے کہ اس کی پوجا ہو، اس کو ڈنڈوت کیا جائے اور اس کے سامنے قربت ونی کی ( جیسے منت اور چڑھاوے) کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے، پس ہر چیز کہ جو اس مقصد کے لئے نصب کی جائے اور اس کی پرستش و تعظیم کا عقیدہ رکھا جائے خواہ وہ پتھر ہو یا لکڑی اور یا کوئی دوسری چیز وہ نصب ہی کہلائے گی۔ تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا۔ یعنی اپنے کمال قرب کے ساتھ ان پر اپنی بجلی ڈالے گا یہ تو اس جملہ کی سیدھی سی تاویل ہے ویسے حقیقت یہ ہے کہ آنا پروردگار کی صفات میں سے ہے جس کو اس نے اپنے کلام پاک میں اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے اور حدیث مقدسہ میں بھی اس کا اسی طرح (اس کی ذات کی طرف منسوب ہونا) ذکر ہے نیز ہم اس کی حقیقت و کیفیت جانے بغیر جوں کے توں اس پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی ذات پاک اس نقل و حرکت سے منزہ ہے جو آنے میں ہوتی ہے پس یہ بات متشابہات میں سے ہے اور ہم پر ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں زیادہ نہ الجھیں بلکہ حقیقت حال کا علم بس اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں، اس جملہ کی کچھ تاویلیں کی گئی ہیں، مثلا یہ کہ آنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ آئے گا۔ یا یہ کہ ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گا جیسا کہ اگلے جملہ سے اشارۃ یہ بات مفہوم بھی ہوتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کھولی جائے گی۔ کے بارے میں بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کے کھلنے سے مراد خوف و دہشت اور گبھراہٹ وہول کا جاتا رہنا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کھلنے سے مراد خوف و دہشت اور گبھراہٹ وہول کا جاتا رہنا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کھلنے) سے مراد ایک عظیم نور کا ظاہر ہونا ہے یا یہ کہ فرشتوں کی جماعت کا ظاہر ہونا مراد ہے لیکن سب سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں بھی توقف ہی کیا جائے اور اس جملہ کی کوئی تاویل کرنے کی بجائے اس کا حقیقی علم اللہ کے سپرد کردیا جائے۔ حدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کھلنے، لوگوں کو سجدہ کا حکم ملنے اور پھر کچھ لوگوں کے سجدہ کرنے اور کچھ لوگوں کے سجدہ پر قادر نہ ہونے کا حکم ہے وہاں پر علامہ نووی (رح) نے اپنی شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ حدیث کے اس جزو سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ آخرت میں منافقین بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کوئی بنیاد نہیں رکھتا، کیونکہ حدیث کے مذکورہ الفاظ میں یہ صراحت نہیں ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے اس دیدار سے منافقین بھی مشرف ہوں گے، بلکہ اس موقع پر صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کہ جن میں مخلص مؤمن بھی ہوں گے اور منافق بھی اپنا حجاب مٹا دے گا اور پھر امتحان و آزمائش کے لئے سب کو سجدہ کا حکم دے گا، پس جو شخص مخلص ہوگا سجدہ کرے گا اور جو شخص منافق ہوگا سجدہ نہیں کرسکے گا۔ اس بات سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ منافق بھی اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ پس مسلمان لوگ گزریں گے۔ یعنی اس پل صراط کے اوپر سے تمام مسلمان اس طرح گزریں گے کہ دنیا میں جو شخص عقیدہ و ایمان عمل و کردار اور دین و شریعت پر استقامت کے اعتبار سے جس درجہ کا رہا ہوگا اس کے مطابق آسانی کے ساتھ یا دشواری کے ساتھ اس مرحلہ کو پار کرے گا جس کی طرف حدیث کے اگلے جملہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پس وہ پل صراط گویا دین و شریعت کے صراط مستقیم اس قدر روشن اور واضح ہے کہ جو صدق نیت اور اخلاص قلب کے ساتھ اس پر چلنا چاہے اس کے لئے کوئی دشواری نہیں ہے۔ اور کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور دوزخ کے آگ سے نجات پائیں گے۔ کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ جو مسلمان گناہگار ہوں گے وہ اس پل صراط پر سے گزرنے میں سخت دشواری اور تکلیف واذیت کا شکار ہونگے، مثلا پل صراط کے دونوں طرف جو فولادی آنکڑے ہوں گے وہ ان کو زخمی کریں گے ان کا راستہ روکیں گے اور ان کے جسم کو چھلیں گے لیکن وہ مسلمان زخمی ہو کر اور چل چلا کر کسی نہ کسی طرح پل کو پار کر ہی لیں گے اور جنت میں پہنچ جائیں گے، اس طرح وہ لوگ دوزخ میں نہیں گریں گے، بلکہ پل صراط کے اوپر ہی تکلیف اور مشقت اٹھا کر نجات پاجائیں گے۔ یہ مطلب ظاہر حدیث کے اسلوب کے زیادہ مطابق ہے اور ترجمہ میں اسی کا لحاظ رکھا گیا ہے دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ پہلے تو پل صراط پر اس کے آنکڑوں کی وجہ سے زخمی ہوں گے سخت پریشانیوں سے دوچار ہوں گے اور پھر دوزخ میں گرادئیے جائیں گے جہاں وہ اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے لئے ایک مدت تک رہیں گے اور پھر ان کو دوزخ کی آگ سے نجات دے کی جنت میں پہنچادیا جائے گا۔ و مکدوش فی نار جہنم ( نیز کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو پارہ پارہ کئے جائیں گے اور دوزخ میں دھکیل دئیے جائیں گے۔ یہ ان گناہ گار مسلمانوں کا ذکر ہے جن کو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے بہرحال دوزخ کے سپرد کیا جائے گا، چناچہ یہ لوگ نہ صرف پل صراط پر گزرتے وقت سخت زخمی، تباہ حال اور مصیبت زدہ ہوں گے بلکہ ان کو دوزخ میں بھی گرا دیا جائے گا تاکہ وہ وہاں اس وقت تک عذاب پاتے رہیں جب تک ان کا اللہ چاہے مکدوش کا لفظ شین کے ساتھ منقول ہے ویسے یہ لفظ مکدوس یعنی سین کے ساتھ بھی مذکور معنی میں نقل ہوا ہے اور بعض روایتوں میں مکدوس منقول ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ان سب کو باندھ باندھ کر ہاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر دوزخ میں اس طرح اکٹھا پھینکا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے پر جا کر گریں گے۔ یہاں تک کہ جب مؤمن دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے۔۔ الخ۔ میں لفظ حتی ( یہاں تک کہ) اس مرحلہ کے ذکر کی غایت ہے جس میں تمام مؤمن پل صراط پر سے گزریں گے اور پھر ان میں سے کچھ لوگ تو پل کو پار کر جائیں گے اور کچھ لوگ دوزخ میں جا گریں گے لیکن طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ لفظ حتی دراصل مکدوش فی نار جہنم ( وہ لوگ جو پارہ پارہ ہو کر جہنم میں گرجائیں گے کی غایت ہے اس صورت میں پوری عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ نیز کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو پارہ پارہ کئے جائیں گے اور دوزخ میں دھکیل دئیے جائیں گے اور پھر آخر کار ان کو بھی ( اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد یا کسی کی شفاعت سے اور یا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے) دوزخ سے نجات مل جائے گی، پس قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔۔ الخ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مؤمن ہمیشہ کے لئے دوزخ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار دوزخ سے نجات مل جائے گی، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔۔ الخ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مؤمن ہمیشہ کے لئے دوزخ کے عذاب میں مبتلا نہیں رہیں گے اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دئیے جائیں گے بلکہ وہ جنت میں پہنچنے کے بعد ان دوسرے مؤمنوں کی بھی شفاعت کریں گے اور بارگاہ رب العزت میں ان کو عذاب سے چھٹکارا دلانے کی سخت ترین جدوجہد کریں گے جو اپنے گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے اس وقت تک دوزخ سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہوں گے جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد پس قسم ہے اس ذات کی۔۔ الخ۔ کے ذریعہ واضح فرمایا۔ تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر وثابت شدہ حق کے اصول میں۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر تمہارا کوئی حق بالکل ظاہری دلائل و شواہد کے ذریعہ واجب ہوتا ہے اور تم اس حق کو پانے کا بہر صورت استحقاق رکھتے ہو تو اس شخص سے اپنا وہ حق حاصل کرنے کے لئے تم جتنا شدید مطالبہ و تقاضا کرتے ہو اور اس کے حصول کی جدوجہد میں جس طرح سعی و کوشش کی آخری سے آخری حد تک چلے جاتے ہو، اس سے بھی زیادہ شدید تمہارا مطالبہ اس دن بارگاہ رب العزت میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کی نجات کے لئے ہوگا جو دوزخ میں پڑے ہوں گے اور تم ان کو وہاں سے نکلوانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے عرض ومعروض اور درخواست و شفاعت میں سعی اور کوشش کی آخری سے آخری حد تک چلے جاؤ گے۔ پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کردیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کو اس بات سے منع کردیا جائے گا کہ وہ ان نااہل ایمان کو اس طرح جلائے یا نقصان پہنچائے کہ ان کے چہرے مسخ ہوجائیں اور وہ پہچان میں نہ آسکیں۔ حاصل یہ کہ اس وقت تک جو اہل ایمان دوزخ میں ہوں گے ان کے چہرے نہ تو جلیں گے اور نہ سیاہ ہوں گے، لہٰذا ان کی شفاعت کرنے والے مؤمن اس علامت کے ذریعہ ان کو آسانی کے ساتھ پہچان لیں گے اور دوزخ سے نکلوا لیں گے۔ جس کے دل میں تم دینار کے برابر بھی نیکی پاؤ یہاں اور اسی طرح آگے کے جملہ میں نیکی سے مراد وہ چیز ہے جو اصل ایمان سے زائد ہوگی۔ کیونکہ اصل ایمان کہ جس کو تصدیق کہتے ہیں ایک ایسا جوہر ہے جو اجزاء اور حصوں میں ناقابل تقسیم ہے اور اس پر کمی بیشی وغیرہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس نیکی کو اجزا اور حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یا جس پر کمی بیشی کا اطلاق ہوتا ہے وہ اصل ایمان سے زائد اور ایمان کے نتیجہ وثمرہ کے طور پر ایک الگ چیز ہوتی ہے پس دل میں دینار برابر یا آدھے دینار برابر نیکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن کے پاس معمولی درجہ کا بھی ایسا عمل صالح ہو کے جس کے فعل کا تعلق دل سے ہے جیسے ذکر خفی ( دل میں اللہ کو یاد کرنا) یا کسی غریب و مسکین پر شفقت کرنا یا خوف الہٰی اور نیت صادقہ وغیرہ تو ان کو دوزخ سے نکلوا لو۔ جنہوں نے کبھی بھی کوئی نیکی کی ہی نہیں ہوگی، یہاں بھی ( نیکی) سے مراد وہ چیز ہے جو اصل ایمان سے زیادہ ہو، پس یہ لوگ کہ جن کو ارحم الراحمین محض اپنی خصوصی رحمت کے تحت دوزخ سے نکالے گا اپنے پاس افعال قلب میں سے بھی کوئی چھوٹی یا بڑی نیکی نہیں رکھتے ہوں گے البتہ اصل ایمان ( یعنی تصدیق) کے حامل ضرور ہوں گے اور ان لوگوں کی شفاعت کی اجازت کسی کو حاصل نہیں ہوگی۔ ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی میں مہر سے مراد سونے وغیرہ کا وہ زیور ہے جو گلے میں لٹکایا جاتا ہے، حاصل یہ کہ علامت کے طور پر ان کے گلوں میں کچھ مخصوص قسم کے ہار پڑے ہونگے جن کے ذریعہ وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز نظر آئیں گے۔
Top