مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5487
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه أونفسه .
نصیبہ والا شخص
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت کے لئے نصیبہ والا شخص وہ ہوگا، جس نے ( دنیا میں) خلوص تہ دل سے، یا یہ فرمایا کہ خلوص تہ نفس سے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
من قلبہ او من نفسہ میں حرف او کے ذریعے راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہاں من قلبہ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا من نفسہ کے، بہر حال دونوں کے معنی ایک ہی ہیں کیونکہ نفس سے مراد بھی دل ہی ہے نیز خالصا من قلبہ ( خلوص تہ دل) ترکیب تاکیدی ہے، کیونکہ خلوص کی جگہ تہ دل یعنی دل کی گہرائی ہی ہے نہ کہ کچھ اور، اس اعتبار سے تہ دل کا دوسرانام خلوص ہے پس کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے میں نے فلاں چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے یا میں نے فلاں بات اپنے کان سے سنی ہے۔ حدیث میں اسعد کا لفظ سعید کے معنی میں ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اہل توحید میں سے نہیں ہوگا وہ آنحضرت کی شفاعت سے فیض یاب نہیں ہوگا یا من قال سے مراد وہ شخص ہے جس کے نامہ اعمال میں ایسا کوئی بھی عمل نہ ہو جس کے سبب وہ رحمت کا مستحق قرار پاسکے اور دوزخ کی آگ سے نجات پانے کا سزا وار ہوسکے، اس صورت میں ظاہر ہے کہ شفاعت کا سب سے زیادہ ضرورت مند وہی شخص ہوگا اور شفاعت اسی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔
Top