مشکوٰۃ المصابیح - حشر کا بیان - حدیث نمبر 5454
وعن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يقول الله تعالى يا آدم فيقول لبيك وسعديك والخير كله في يديك . قال أخرج بعث النار . قال وما بعث النار ؟ قال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين فعنده يشيب الصغير ( وتضع كل ذات حمل حملها وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد ) . قالوا يا رسول الله وأينا ذلك الواحد ؟ قال أبشروا فإن منكم رجلا ومن يأجوج ومأجوج ألف ثم قال والذي نفسي بيده أرجو أن تكونوا ربع أهل الجنة فكبرنا . فقال أرجو أن تكونوا ثلث أهل الجنة فكبرنا فقال أرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة فكبرنا قال ما أنتم في الناس إلا كالشعرة السوداء في جلد ثور أبيض أو كشعرة بيضاء في جلد ثور أسود . متفق عليه . ( متفق عليه )
اہل جنت کی سب سے بڑی تعداد امت محمدی پر مشتمل ہوگی
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (قیامت کے دن میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ آواز دے گا کہ اے آدم! آدم جواب دیں گے کہ میں حاضر ہوں تیری تابعداری کے لئے تیار ہوں ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھوں میں ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا آگ والوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگو کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کرلو۔ آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کرلو۔ آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کی تعداد ( کا تناسب) کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں ( یعنی دوزخیوں کا تناسب یہ ہے کہ ہر ہزار میں سے ایک آدمی جنت میں جائے گا اور باقی دوزخ میں ڈالے جائیں گے)! یہ حکم الٰہی سن کر چھوٹی عمر والا بوڑھا ہوجائے گا اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل ضائع کر دے گی۔ اور اس وقت) تم دیکھو گے کہ لوگ گویا نشہ میں مست ہیں حالانکہ وہ ( شراب جیسے نشہ سے مست نہیں ہوں گے بلکہ عذاب الہٰی بہت سخت ہے ( یعنی لوگوں کی وہ سر مستی ومدہوشی، عذاب الٰہی کے خوف و دہشت کی بناء پر ہوگی) صحابہ کرام نے ( جب یہ سنا کہ جنت میں جائے گا) ہم میں کون ہوگا؟ آنحضرت ﷺ نے ( ان کو سمجھانے اور تسلی دینے کے لئے) فرمایا اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ ( جنت میں جانے والا) ایک شخص تم میں سے ہوگا اور ( دوزخ میں جانے والے ہزار شخص یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں امید رکھتا ہوں کہ ( اے میری امت کے لوگو) تم اہل جنت کی مجموعی تعداد میں جنت کے مستحق ہوں گے) آنحضرت ﷺ نے پھر ( اور بڑی بشارت دینے کے لئے) فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ ہونگے، ( یہ سن کر) ہم نیے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں۔ ( تم لوگوں یعنی امت محمدی ﷺ کی یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ جنت میں جانے والوں میں سب سے بڑی تعداد اسی امت کی ہوگی جب کہ اس دنیا میں) لوگوں کے درمیان تمہاری تعداد اتنی کم ہے جیسا کہ سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ تل یا ایک کالے بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہو۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
ہر ہزار میں سے نو سوننانویں ان الفاظ کے اعتبار سے یہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ کی نقل کردہ اس حدیث کے مخالف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر سو ننانویں لوگ دوزخی ہوں گے؟ پس کرمانی نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ان دونوں روایتوں میں کسی خاص عدد کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اصل مقصد اہل ایمان کی تعداد کے کم ہونے اور اہل کفر کی تعداد کے زیادہ ہونے کو بیان کرنا ہے! پس یہاں ہر ہزار میں سے نوسوننانویں کا جو تناسب بیان کیا گیا ہے وہ کافروں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہر سو میں سے ننانویں جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ گنہگاروں کے اعتبار سے ہے! اور ابن حجر (رح) نے یہ لکھا ہے کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت کردہ حدیث کے مفہوم کو تو حضرت آدم (علیہ السلام) کی تمام ذریت پر محمول کیا جائے ( یعنی یہاں حدیث میں اہل دوزخ کے لئے ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ از اول تا آخر تمام انسانوں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں اہل دوزخ کے لئے ہر سو ننانوے کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے اس کو یاجوج ماجوج کے علاوہ دوسرے لوگوں پر محمول کیا جائے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا ذکر حضرت ابوسعید خدری ؓ ہی کی روایت میں ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں یا یہ کہ حضرت ابوسعید ؓ کی روایت کا تعلق تمام مخلوق سے ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کا تعلق صرف امت محمدی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے! اور یا یہ کہ حضرت ابوسعید ؓ کی روایت میں اہل دوزخ کے لشکر سے مراد تمام کفار اور تمام گنہگار ہیں جب کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں اہل دوزخ کے لشکر سے مراد صرف مسلمان گنہگار ہیں! بہرحال ان تاویلات اور توجہیات سے ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اور ہر حاملہ اپنا حمل ضائع کر دیگی کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ بات فرض کرنے کے طور پر بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بالفرض اس وقت کوئی چھوٹی عمر کا ہو تو وہ اس صورت حال کی ہیبت اور اس فیصلہ الٰہی کے صدمہ وخوف سے بوڑھا ہوجائے اسی طرح اس وقت اگر کوئی عورت حمل سے ہو تو مارے ہیبت کے اس کا پیٹ گرپڑے اور بعض حضرات نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ جو عورتیں حمل کی حالت میں مری ہوں گی وہ اپنے حمل کے ساتھ اٹھ کر میدان حشر میں آئینگی اور اس وقت وہ حکم الٰہی سن کر مارے ہیبت کے ان کا حمل گرپڑے گا اسی طرح چھوٹی عمر والے اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے وہ مارے ہیبت کے بوڑھے ہوجائیں گے یہ اور بات ہے کہ وہ جنت میں جاتے وقت جوان ہوجائیں گے۔ اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ الخ کے ذریعہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے خوف و خدشہ کو دور فرمایا کہ دراصل یاجوج وماجوج کی قوم کے لوگ اتنی کثرت میں ہوں گے کہ اگر تمہاری اور ان کی تعداد کا تناسب نکالا جائے تو وہ اس طرح ہوگا کہ ان میں سے تو ایک ہزار شخص اور تم میں سے صرف ایک شخص اور اس صورت حال میں بھی اہل جنت کی تعداد کچھ کم نہیں ہوگی بلکہ بہت ہوگی لہٰذا تمہیں اس خدشہ میں نہ پڑنا چاہئے کہ جنت میں جانے والوں کا تناسب دوزخ میں جانے والوں کے تناسب سے اس قدر کم ہوگا تو ہم میں سے بہت ہی کم لوگ جنت میں جائینگے! تاہم اس بات سے یہ ضرور واضح ہوگیا کہ مجموعی طور پر دوزخ میں جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور جنت میں جانے والوں کی تعداد کم! لیکن اگر اہل جنت میں ملائکہ اور حوروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو شاید اہل جنت کی تعداد، اہل دوزخ کی تعداد سے زیادہ بڑھ جائے گی اور اس صورت میں حدیث قدسی غلبت رحمتی علی عضبی ( میری رحمت میرے غضب پر غالب ہوئی) کے معنی بھی صحیح ہوں گے۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ نے اہل جنت میں امت محمدی ﷺ کا جو تناسب بیان فرمایا اس کو بتدریج ذکر فرمایا یکبارگی ذکر نہیں کیا تاکہ صحابہ کرام کے دل خوشی کے مارے پھٹ نہ جائیں، یا بتدریج ذکر اس بنا پر فرمایا کہ شاید امت محمدی کے لوگ کئی مراحل میں اسی تاسب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے یعنی پہلے مرحلہ میں جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ بنے گا یہاں تک کہ جب سب لوگ جنت میں پہنچ جائینگے تو پھر امت محمدی کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا آدھا حصہ ہوں گے اور یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ پر متعدد بار وحی نازل ہوئی اور مذکورہ تناسب کو اسی تدریج کے ساتھ بتایا گیا، چناچہ جب بھی وحی نازل ہوتی اور اس میں جس نناسب کا ذکر ہوتا آپ ﷺ صحابہ کو بشارت دینے کے لئے اسی کو بیان فرما دیتے! بہرحال یہ احتمالات مذکورہ تناسب کو بتدریج ذکر کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی ﷺ کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہوں گے حالانکہ زیادہ صحیح بات ہے کہ جنت میں امت محمدی ﷺ کی تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی، چناچہ یہ ثابت ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس ١٢٠ صفیں ہوں گی، جن میں سے ٨٠ (اسی) صفیں آنحضرت ﷺ کی امت پر مشتمل ہوں گی اور چالیس صفیں باقی تمام امتیوں کی ہوں گی، پس ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ حدیث ( کہ جس سے امت محمدی ﷺ کا اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہونا معلوم ہوتا ہے) ارشاد فرمائی تھی اس وقت تک آپ ﷺ کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ امت محمدی ﷺ اہل جنت کی کل تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی! اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے نصف حصہ والی بات ابتدائی مرحلہ میں جنت میں جانے والوں کے تناسب کے اعتبار سے فرمائی ہو۔
Top