مشکوٰۃ المصابیح - حشر کا بیان - حدیث نمبر 5453
وعن المقداد قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم كمقدار ميل فيكون الناس على قدر أعمالهم في العرق فمنهم من يكون إلى كعبيه ومنهم من يكون إلى ركبتيه ومنهم من يكون إلى حقويه ومنهم من يلجمهم العرق إلجاما وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فيه . رواه مسلم . ( متفق عليه )
میدان حشر میں سورج بہت قریب ہوگا
اور حضرت مقداد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ( میدان حشر میں) سورج کو مخلوق کے نزدیک کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلہ پر رہ جائے گا پس تمام لوگ اپنے اعمال کے بقدر پسینہ میں شرابور ہوں گے چناچہ ان میں سے بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے ٹخنوں تک پسینہ ہوگا بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے گھٹنوں تک پسینہ ہوگا بعض لوگ وہ ہوں گے جو کمر تک پسینہ میں ڈوبے ہوں گے اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے لئے ان کا پسینہ لگام بن جائے گا یعنی ان کے داہنے تک پسینہ ہوگا بلکہ دہانے کے اندر تک پہنچ جائے گا یہ فرما کر رسول کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اپنے دہانہ، مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ ( مسلم )

تشریح
میل عرب میں کوس ( یعنی ١٧٦٠ گز کے فاصلہ) کو بھی کہتے ہیں اور سرمہ لگانے کی سلائی کو بھی کہا جاتا ہے، پس بعض حضرات نے تو ان سے ایک میل کے فاصلہ پر رہ جانے سے ایک کوس کے بقدر فاصلہ مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس دن سورج سرمہ لگانے کی سلائی بقدر فاصلہ پر ہوگا! بہر حال اصل مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ میدان حشر میں سورج لوگوں کے بہت نزدیک آجائے گا۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس دن لوگوں کو جو پسینہ آئے گا وہ ان کے اعمال کے مراتب کے بقدر ہوگا، چناچہ سب سے کم پسینہ جن لوگوں کو ہوگا وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال بہت زیادہ اور اچھے ہوں گے اور وہ لوگ صرف ٹخنوں تک پسینہ میں شرابور ہوں گے، اسی پر دوسروں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص کے نیک اعمال جتنے کم اور برے اعمال جتنے زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ پسینہ میں غرق ہوگا۔ دو اشکال اور ان کا جواب اس حدیث کے سلسلے میں دو اشکال پیدا ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس وقت سورج ہم سے کروڑوں میل کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود اتنی زیادہ حرارت رکھتا ہے کہ اس کی براہ رست تمازت کسی انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے، تو جب میدان حشر میں سورج صرف ایک میل کے فاصلہ پر رہ جائے گا تو اس کی حرارت و تمازت نہ صرف یہ کہ قابل برداشت کیسے ہوگی بلکہ اس کی زد میں آنے والے لوگ زندہ کیسے رہیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آخرت کے اجسام دنیا کے اجسام کی طرح نہیں ہوں گے اس لئے وہاں کے اجسام پر گزرنے والے احوال پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں آخرت میں چونکہ موت نہیں ہوگی اس لئے وہاں لوگ سخت سے سخت مشقت و تکلیف اٹھالیں گے دوسرا اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ پسینہ دریا کی موج کی طرح بعض لوگوں کے دہانوں تک پہنچ جائے گا تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ دوسرے لوگوں کے سحل تک پہنچ کر رک جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہر شخص کے پسینہ کو اس کے اعمال کے تناسب سے روکے رکھے گی کہ کسی کا پسینہ تو اس کے دہانوں تک پہنچ جائے گا اور کوئی اپنے پسینہ میں صرف ٹخنوں تک غرق رہے گا جیسا کہ اس کا مشاہدہ اس دنیا میں بھی ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریائے نیل کی وہ موجیں جنہوں نے دوسروں کو غرقاب کردیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے لئے ساکن وجامد ہوگئی تھیں! علاوہ ازیں وہی بات یہاں بھی کہی جاسکتی ہے کہ آخرت کے معاملات بالکل جداگانہ نوعیت کے ہوں گے ان کو یہاں دنیا کے حالات و معاملات پر قیاس نہیں کرنا چائے، وہاں کے تمام امور عادت اور دنیاوی نظام قدرت کے بالکل خلاف انوکھے طور پر ظاہر ہوں گے، کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک قبر میں دو مردے ہوتے ہیں اور دونوں پر الگ الگ حالات طاری ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک تو عذاب میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا راحت وچین کے ساتھ ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے احوال سے بیخبر رہتے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نظیر یہ ہے کہ دو شخص ایک طرح کی نیند سوتے ہیں اور وہ دونوں الگ الگ نوعیت کے خواب دیکھتے ہیں، ایک تو خواب دیکھ کر رنج وغم محسوس کرتا ہے اور دوسرا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے اس کو بھی چھوڑئیے، کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ہی مکان میں دو آدمی رہتے ہیں، ان میں سے ایک تو صحت و شادمانی کی حالت میں ہوتا ہے اور دوسرا مرض و مصیبت میں مبتلا ہو کر رنج و تکلیف اٹھاتا ہے؟
Top