مشکوٰۃ المصابیح - قرب قیامت اور جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی کا بیان - حدیث نمبر 5424
وعن سعد بن أبي وقاص عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إني لأرجو أن لا تعجز أمتي عند ربها أن يؤخرهم نصف يوم . قيل لسعد وكم نصف يوم ؟ قال خمسمائة سنة . رواه أبو داود .
دنیا میں امت محمدیہ کے باقی رہنے کی مدت
اور حضرت سعد ابن ابی وقاص نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یقینا میں امید رکھتا ہوں کہ میری امت اپنے پروردگار کی نظر میں اتنی عاجز وبے حقیقت نہیں ہوجائے گی کہ اس کا پروردگار اس کو آدھے دن کی بھی مہلت عطا نہ کرے حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓ سے یہ پوچھا گیا کہ یہ آدھا دن کتنا ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پانچ سو سال۔ ( ابوداؤد)

تشریح
آدھے دن کو پانچ سو سال کے بقدر قرار دینا اس آیت کے پیش نظر ہے کہ وان یوما عند ربک کا لف سنۃ مما تعدون۔ یعنی اللہ کے نزدیک اس کا دن اتنا ہوتا ہے جتنا کہ تمہارے ( شب وروز کے) حساب سے ایک ہزار سال ہوتے ہیں پس جب وہ دن ہمارے شب وروز کی گردش کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو تو آدھا دن یقینا پانچ سو سال کے برابر ہوگا۔ بہرحال آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب کہ میری یہ امت اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس قدر قرب اور جتنا بلند مرتبہ رکھتی ہے وہ اس بات کا یقین رکھنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کم سے کم پانچ سو سال تک تو ضرور ہی امن و حفاظت میں رکھے گا اس کو ہلاک نہیں کرے گا اور دنیا میں اس کی بقا و قیام کی مدت کو اس سے کم نہیں کرے گا اس سے زیادہ چاہے جتنی کر دے پس اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اب سے پانچ سو سال پہلے تو قیامت آئے گی اور اس امت کا خاتمہ نہیں ہوگا ہاں اس مدت کے بعد اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا۔ اور بعض حضرات نے اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بیان کی ہے اللہ تعالیٰ کم سے کم پانچ سو سال تک تو ضرور اس امت کو شدائد وعقوبات سے محفوظ ومامون اور سلامت رکھے گا اور اس کو ایسی آفات میں مبتلا نہیں کرے گا جس سے پوری امت ہلاک و ختم ہوجائے۔۔۔ اس موقع پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنی بعض کتابوں میں ثابت کیا ہے کہ دنیا میں امت کی بقا و قیام آنحضرت ﷺ کے وصال سے ایک ہزار سال کے بعد پانچ سو سال سے آگے متجاوز نہیں ہوگا۔
Top