قرب قیامت اور اس بات کا بیان کہ جو شخص مر گیا اس پر قیامت قائم ہوگئی
زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرب قیامت یعنی قیامت کا نزدیک آجانا اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بقا و وجود کی جو مدت متعین فرمائی ہے اس کا اکثر حصہ گزر چکا ہے اور اب جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بہت کم ہے۔ یہ جملہ وان من مات فقد قامت قیامتہ ( جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی) دراصل ایک حدیث کے الفاظ ہیں جن کو مولف کتاب نے یہاں باب کا عنوان قرار دیا ہے اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرجاتا ہے اس پر ان حالات اور ہولناک مراحل کا کچھ علامتی حصہ گزر جاتا ہے جو قیامت کے دن پیش آنے والے ہیں۔ قیامت کی قسمیں علامہ تورپشتی نے کہا ہے کہ قیامت تین طرح کی ہے ایک قیامت کبری کہ جب پوری کائنات کو زیر وزبر کردیا جائے گا اور پھر تمام لوگوں کو جزا اور سزا کے لئے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا دوسری قیامت وسطی یعنی ایک نسل کا اٹھ جانا اور اس کی جگہ دوسری نسل کا آجانا جس کو قرآن کہتے ہیں گویا عہد کا اس طرح بدل جانا کہ ایک نسل کے تقریبا ہم عمر لوگ وفات پاجائیں اور ان کے بعد کی نسل کے لوگ ان کی جگہ لے لیں ایک طرح کی قیامت ہے اور تیسری قیامت صغری کہ وہ کسی آدمی کا مرجانا ہے اور یہاں یعنی ان من مات فقد قامت قیامتہ میں یہی آخری قسم مراد ہے لیکن ساعۃ کے بارے میں زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کبری ہے خواہ اس کا تعلق پہلی قیامت ( یعنی پہلا صور پھونکے جانے اور اس کائنات کے زیر وزبر ہوجانے) سے ہو جیسا کہ ارشاد گرامی لا تقوم الساعۃ الا علی اشرار الناس سے ثابت ہے اور خواہ اس کا تعلق دوسری قیامت ( یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکے جانے اور تمام لوگوں کے دوبارہ زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہونے وغیرہ) سے ہو جس کو طامہ کبری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے! آگے باب کی جو پہلی حدیث آرہی ہے اس کے الفاظ بعث انا والساعۃ کھاتین میں ساعۃ کا لفظ قیامت کے ان دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے، البتہ کچھ اور آگے حضرت عائشہ ؓ کی جو روایت آئے گی اس میں ساعۃ سے مراد قیامت وسطی ہے۔