مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان - حدیث نمبر 5415
وعنه قا ل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والله لينزلن ابن مريم حكما عادلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية وليتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتحاسد وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد . رواه مسلم . وفي رواية لهما قال كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وإمامكم منكم .
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی برکتیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا واللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اس حالت میں نازل ہونگے کہ وہ ایک عادل حاکم ہونگے صلیب کو توڑ دیں گے سور کو مار ڈالیں گے زمیوں سے جزیہ کو اٹھا دیں گے اور جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا کہ اس سے سواری اور باربرداری کا کام نہیں لیا جائے گا اور یقینا لوگوں کے دلوں سے کینہ بعض اور حسد جاتا رہے گا ( کیونکہ یہ سب برائیاں دنیا کی محبت و لالچ سے پیدا ہوتی ہیں جب دنیا اور دنیا کی چیزوں کی طرف کوئی رغبت ہی نہیں رہ جائے گی تو یہ برائیاں کہاں سے پیدا ہونگی) اور یقینا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کو مال و دولت سے نوازنے کے لئے بلائیں گے لیکن ( استغنا و بےنیازی کی وجہ سے کوئی بھی مال و دولت لینے والا نہیں ہوگا۔ ( مسلم) اور بخاری ومسلم کی روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا ( یعنی تم کتنا سکون وکیف محسوس کرو گے) جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ( یعنی اہل قریش میں سے یا تمہاری ملت کا کوئی بھی فرد) ہوگا۔

تشریح
جوان اونٹینوں کو چھوڑ دیا جائے کا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت سواری اور باربرداری کے لئے ایسے آرام دہ اور تیز رفتاری ذرائع مہیا ہوں گے اور ان کی اتنی کثرت ہوگی کہ نقل وحمل کے مقاصد کے لئے کسی کو انٹنیوں جیسے جانوروں کی ضرورت نہیں ہوگی یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کسی کو یہ حکم نہیں دیں گے کہ وہ زکوٰۃ میں دینے کے لئے اپنی اونٹنیوں کو ان کے پاس لانے کی زحمت برداشت کرے کیونکہ اس زمانہ میں زکوٰۃ کا مال قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا! اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ اس زمانہ میں لوگ اپنی معاش و ضروریات سے اس قدر مستغنی وبے نیاز ہوں گے کہ اشیاء ضرورت اور مال و اسباب حاصل کرنے کے لئے تجارت اور زمین پر سفر وغیرہ کا سلسلہ تقریبا موقوف ہوجائے گا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا الخ کا مطلب علما نے دو صورتوں میں بیان کیا ہے ایک تو یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے کے بعد بھی تمہاری نماز کا امام تم ہیں میں سے ایک فرد ہوگا اور وہ امام مہدی ہیں اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی اقتداء کریں گے۔ اور یہ بات اس امت محمدی کی تعظیم و تکریم کے پیش نظر ہوگی جیسا کہ آگے والی حدیث میں اس کی تصریح بھی ہے! لہذا اس زمانہ میں حاکم و خلیفہ اور خیر و بھلائی کی تعلیم و تلقین کرنے کے ذمہ دار تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی ہوں گے لیکن نماز کی امامت کا شرف حضرت امام مہدی کو حاصل رہے گا! لیکن بعض روایتوں میں یہ منقول ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے حضرت امام مہدی مسلمانوں کے ساتھ نماز کی حالت میں ہوں گے اور چاہیں گے کہ امامت کے مصلے سے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) امامت کریں مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کی نماز کی امامت نہیں کریں گے بلکہ خود امام مہدی ہی کے پیچھے پڑھیں گے، البتہ اس وقت کی نماز کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی امامت کریں گے کیونکہ وہ بہر حال حضرت امام مہدی سے افضل ہونگے۔ دوسری صورت میں اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اور تمہارا مام تم ہی میں سے ہوگا۔ امام سے مراد خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات ہے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ مسلمانوں ہی کی شریعت کے مطابق حکم احکام جاری کیا کریں گے نہ کہ انجیل کی تعلیمات کے مطابق اور ان کا سارا نظام دین و دنیا قرآن کریم اور احادیث رسول کے منہاج پر استوار اور ان کے تمام معاملات مسلمانوں کے دین وملت کے مطابق ہوں گے جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پروردگار کی کتاب ( قرآن) اور تمہارے پیغمبر کی سنت کے مطابق تمہاری امامت کریں گے۔ اس اعتبار سے وہ مسلمانوں کی ملت کے ایک فرد ہوں گے اور وہ جب مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ان ہی میں کا ایک فرد ان کا امام ہے۔
Top