مشکوٰۃ المصابیح - ابن صیاد کے قصہ کا بیان - حدیث نمبر 5412
وعن جابر أن امرأة من اليهود بالمدينة ولدت غلاما ممسوحة عينه طالعة نابه فأشفق رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكون الدجال فوجده تحت قطيفة يهمهم . فآذنته أمه فقالت يا عبد الله هذا أبو القاسم فخرج من القطيفة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لها قاتلها الله ؟ لو تركته لبين فذكر مثل معنى حديث ابن عمر فقال عمر بن الخطاب ائذن لي يا رسول الله فأقتله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن يكن هو فليست صاحبه إنما صاحبه عيسى بن مريم وإلا يكن هو فليس لك أتقتل رجلا من أهل العهد . فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم مشفقا أنه هو الدجال . رواه في شرح السنة . وهذا الباب خال عن الفصل الثالث
کیا آنحضرت ﷺ بھی ابن صیاد کو دجال سمجھتے تھے ؟
اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک یہودی عورت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کی آنکھ ( یعنی داہنی آنکھ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بائیں آنکھ) مٹی ہوئی اور ہموار تھی اور اس کی کچلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں رسول کریم ﷺ ( کو جب اس طرح کے لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ ﷺ ڈرے کہ کہیں یہ دجال نہ ہو ( اور امت کے لوگوں کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرے) پس ( ایک دن آنحضرت ﷺ اس کو دیکھنے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو) آپ ﷺ نے اس کو ایک چادر کے نیچے لیٹا ہوا پایا، اس وقت وہ آہستہ آہستہ کچھ بول رہا تھا جس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تھا اس کی ماں نے کہا، عبداللہ یعنی ابن صیاد ( دیکھو) یہ ابوالقاسم ( محمد ﷺ کھڑے ہوئے ہیں ( ہوشیار ہوجاؤ اور ان سے بات کرو) وہ ( یہ سنتے ہی) چادر سے باہر نکل آیا، رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس عورت کو کیا ہوا، اللہ اس کو ہلاک کرے ( کہ اس نے لڑکے کو میری آمد سے خبردار اور ہوشیار کردیا) اگر وہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ( اور میری آمد سے آگاہ نہ کرتی) تو یقینا وہ اپنا حال ظاہر کردیتا۔ اس کے بعد حضرت جابر یا روای نے حضرت عمر کی (اس) حدیث کے مطابق بیان کیا ( جو باب کے شروع میں نقل کی جاچکی ہے چناچہ حضرت عمر ابن خطاب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ اجازت دیں تو میں اس کو قتل کر ڈالوں حضور ﷺ نے فرمایا۔ اگر یہ ( ابن صیاد) وہی دجال ہے تو اس کے قاتل تم نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے قاتل عیسیٰ ابن مریم ہوں گے ( کیونکہ حضرت عیسیٰ کے علاوہ کسی اور شخص کو اس کے قتل کی طاقت وقدرت ہی نہیں دی گئی ہے اور اگر یہ وہ دجال نہیں ہے تو تمہیں ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں جو اہل ذمہ میں سے ہے ( یعنی ان غیر مسلموں میں سے ہے جن کے جان ومال کی حفاظت ہمارے ذمہ ہوچکی ہے اور جن کو ذمی کہا جاتا ہے) اس کے بعد رسول کریم ﷺ (اپنی امت کے تعلق سے برابر یہ خوف رکھتے تھے کہ ابن صیاد کہیں دجال نہ ہو ( اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
حدیث میں ابن صیاد کے تعلق سے جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور عام طور پر لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے خدشات رکھتے تھے اسی لئے حضرت عمر ؓ نے اس کو قتل کردینے کی اجازت چاہی تھی اگرچہ وہ بعد میں مسلمان ہوگیا تھا۔ مگر اسلام لانے کے بعد وہ اپنے فاسد خیالات سے پھرا نہیں تھا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں گزرا کہ اس نے مکہ کے سفر کے دوران یہ اقرار کیا تھا کہ اگر مجھے دجال بنادیا جائے تو میں خوش ہوں گا اور ظاہر ہے کہ یہ کفر ہے اور اس کی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس درجہ کا مسلمان ہوگا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ابن صیاد کے بارے میں جو احادیث و روایت منقول ہیں گو ان کے درمیان اختلاف وتضاد ہے اور اس کے متعلق علماء کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہے، لیکن اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے تعلق سے جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ ابن صیاد کے دجال ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے، اس کی یہ توجیہ و تاویل ضروری ہے کہ جب تک آپ ﷺ کو مسیح دجال کے بارے میں پورے حقائق کا علم نہیں ہوا تھا، آپ ابن صیاد کو دجال سمجھتے تھے، لیکن جب تمیم داری کے واقعہ سے اور وحی کے ذریعہ بھی آپ ﷺ کو یہ یقین حاصل ہوگیا کہ دجال کون ہوگا تو آپ ﷺ پر یہ بات واضح ہوگئی ابن صیاد وہ ذات یعنی دجال نہیں ہے جو سمجھا جاتا تھا اس کی تائید حضرت ابوسعیدخدری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں مکہ کے سفر کے دوران ابن صیاد اور ان کی ملاقات و گفتگو کا ذکر ہے رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے دجال کے والدین کے بارم میں جو کچھ بتایا تھا وہ ابن صیاد کے والدین پر صادق آیا تو اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ابن صیاد ہی دجال تھا کیونکہ دو الگ الگ اشخاص میں پائے جانے والے اوصاف و خصوصیات کا باہم مطابق و یکساں ہوجانا ان دونوں شخصیتوں کے ایک ہونے کو لازم نہیں کرتا ایسے ہی حضرت عمر ؓ وغیرہ کا قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اس پر آنحضرت ﷺ کی طرف سے کسی ممانعت کا نہ ہونا اس وقت کی بات ہے جب کہ دجال کے احوال تفصیل کے ساتھ علم میں نہیں آئے تھے اور چونکہ دجال میں بعض باتیں ایسی ہوں گی جو خوف کا سبب بن سکتی ہیں اس لئے حضور ﷺ اس وقت اپنی امت کے بارے میں احتیاط کرتے تھے کہ کہیں ابن صیاد دجال نہ ہو اور میری امت کے لوگوں کو فتنہ و فساد میں نہ مبتلا کرے۔
Top