مشکوٰۃ المصابیح - ابن صیاد کے قصہ کا بیان - حدیث نمبر 5408
وعن محمد بن المنكدر قال رأيت جابر بن عبد الله يحلف بالله أن ابن الصياد الدجال . قلت تحلف بالله ؟ قال إني سمعت عمر يحلف على ذلك عند النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينكره النبي صلى الله عليه وسلم . متفق عليه .
ابن صیاد، دجال ہے
اور حضرت محمد ابن منکدر تابعی (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ابن عبداللہ ؓ کو دیکھا وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں! ( حالانکہ ابن صیاد کا دجال ہونا صرف ظنی ہے نہ کہ یقینی) انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق ؓ کو سنا، وہ اس بات پر نبی کریم ﷺ کے سامنے قسم کھاتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس سے انکار نہیں فرمایا ( اگر یہ بات یقینی نہ ہوتی تو یقینا آنحضرت ﷺ حضرت عمر ؓ کی اس بات کا انکار کرتے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
ہوسکتا ہے کہ حضرت جابر اور حضرت عمر ؓ کا قسم کھانا اس بات پر ہو کہ ابن صیاد، ان دجالوں ( یعنی جھوٹوں اور غریبوں میں سے ایک ہے جو وقتا فوقتا اس امت میں پیدا ہوتے رہیں گے اور اپنی نبوت کا دعوی کرکے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور شکوک و شبہات میں مبتلا کریں گے گویا ان دونوں کی قسم کا تعلق اس بات سے نہیں تھا کہ ابن صیاد واقعۃ دجال ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابن صیاد کے معاملہ کو مبہم رکھ کر گویا اس بات کی تردید فرما دی تھی کہ وہ یقینی طور پر دجال ہے! لیکن روایت کے الفاظ میں مطلق دجال کا ذکر ہے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک دجال معہود ہی مراد تھا اس صورت میں ان دونوں کی قسم کو غلبہ ظن کے وقت قسم کھا لینے کے جواز پر محمول کیا جائے گا نیز آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر ؓ کی جو روایت آرہی ہے اس میں انہوں نے صراحۃ بیان کیا ہے کہ ابن صیاد دجال معہود تھا پس ہوسکتا ہے کہ ابن عمر ؓ کا مسلک بھی یہی رہا ہو بہر حال یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ ابن صیاد کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف و اشتباہ تھا۔
Top