مشکوٰۃ المصابیح - قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر - حدیث نمبر 5385
وعن أنس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يتبع الدجال من يهود أصفهان سبعون ألفا عليهم طيالسة . رواه مسلم . ( متفق عليه )
دجال کے تابعدار یہودی ہوں گے
اور حضرت انس رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی اطاعت و پیروی اختیار کریں گے جن کے سروں پر طیلسائیں ہوں گی۔ ( مسلم)

تشریح
لفظ یتبع ی کے زبر، ت کے جزم اور ب کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی ہمراہ ہونے کے ہیں۔ لیکن ایک شارح نے کہا ہے کہ یہ لفظ اتباع ( ت کی تشدید کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں پیروی کرنا! اصفہان ( الف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ ایک مشہور شہر کا نام ہے جو ایران میں واقع ہے ایک روایت میں ستر ہزار کے بجائے نوے ہزار کے الفاظ ہیں لیکن مشہور روایت کے مطابق زیادہ صحیح ستر ہزار ہی ہے! لفظ طیالستہ اصل میں طیلسان کی جمع ہے جو عرب میں ایک مشہور کپڑے کا نام ہے اور یہ چادر کی صورت میں ہوتا ہے۔ عیاض وغیرہ نے یہ نقل کیا ہے کہ طیلسان کا لفظ معرب ہے، یعنی اصل میں یہ لفظ تالسان تھا جس کو عربی میں طیلسان کردیا گیا ہے واضح رہے کہ بعض علماء نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ طیلسان اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لوگ خیبر کے یہودی جیسے معلوم ہوتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ طیلسان میں کوئی برائی نہیں ہے اور اس کو استعمال کرنا کوئی قباحت نہیں رکھتا بلکہ سر کو چادر سے ڈھانکنے کے طور پر طیلسان کا استعمال مسنون بھی ہے چناچہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام سے متعلق بہت سی حدیثیں منقول ہیں گو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں طیلسان صرف یہودیوں کے مخصوص لباس سے تعلق رکھتی ہو اور حضرت انس ؓ اسی اعتبار سے اس کے استعمال کو پسندیدہ نظر سے نہ دیکھا ہو، یا انہوں نے اس سبب سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہو کہ ان لوگوں نے اس وقت جو طیلسان اوڑھ رکھی تھی ان کا رنگ زرد تھا اس موقع پر یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ طیلسان کے سلسلہ میں علماء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ صرف اس کے چادر کے طور پر اس طرح اوڑھنے کے متعلق ہے کہ اس کا پلہ سر کے اوپر اوڑھا جائے اور اس کے کناروں کو کاندھے پر ڈال لیا جائے جس کو تقنع اور قناع بھی کہا جاتا ہے! بہر حال جو حضرات طیلسان کے استعمال کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ طیلسان اوڑھنے کے بارے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام سے جو کچھ منقول ہے اس کا تعلق خاص حالات اور ضرورت سے ہے، کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام نے کسی خاص ضرورت کے تحت مثلا کسی وقت دھوپ سے بچنے کے لئے طیلسان کو اپنے سر پر ڈال لیا ہوگا لیکن جمہور علماء نے طیلسان کے اوڑھنے اور استعمال کرنے کو بلا کراہت مطلق جائز قرار دیا ہے، چناچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سر کو طیلسان سے ڈھانکو، کیونکہ چادر اوڑھنا اہل عرب کا پہناوا ہے اور اقتناع ( یعنی طیلسان کو مذکورہ بالا طریقہ سے اوڑھنا) اہل ایمان کا پہناوا ہے ایک اور حدیث میں یوں ہے کہ طیلسان سے سر کو ڈھانکنا، دن میں نفقہ ہے اور رات میں زینت نیز ایک روایت میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ قناع کو بہت اختیار فرماتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام سے بھی تقنع کا اختیار کرنا منقول ہے اور اس بارے میں کافی آثار واخبار ثابت ہیں۔
Top